8 September, 2024


دارالاِفتاء


میں کہ تفضّل حسین ساکن موضع ڈھکواں کا ہوں، میرا ایک قطع مکان بے چھاجن کے ہے جس کو منشی عثمان ساکن ڈھکواں کے مبلغ ۹۰۰؍ روپے کی بات چیت مسجد کے لیے ہوئی تھی، عرصہ ۲؍ سال کا ہوا لیکن ابھی تک روپیہ نہیں دے پایا۔ عرصہ ۲؍ ماہ کا ہوا کہ میرے رشتہ دار عبد القدیر کے ساتھ مکان کی بات چیت ہوئی، کیوں کہ مکان کی ضرورت پھر کل ۲۸؍ مئی ۵۷ء کو موضع کے کچھ لوگ جمع ہو کر ۱۱۵۰؍ روپے پر تعمیر مسجد کے لیے طے کیا ہے۔ لیکن آج ۲۹؍ مئی ۱۹۵۷ء کو تفضّل حسین نے مسجد میں دینے سے انکار کر دیا ہے اور عبد القدیر کے لیے تیار ہیں۔ تعمیر مسجد بنانے والوں اور مکان بنانے والوں سے جھگڑا پیدا ہو گیا ہے۔ آپ لوگوں کے پاس یہ تحریر اس مسئلہ سے بھیجی جاتی ہے کہ آیا مسجد بنانا جائز ہے یا مکان بنانا جائز ہے؟ فقط والسلام۔ نوٹ: اوپر عبد القدیر کے بجاے مصطفیٰ کا نام ہونا چاہیے۔

فتاویٰ #1174

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجوابـــــــــــــــــ: جب کہ ۲۸؍ مئی کو یہ مکان تفضّل حسین نے تعمیر مسجد کے لیے طے کر دیا جس کا مطلب سائل سے یہ معلوم ہوا کہ بیچ دیا تو یہ بیع تام ہو گئی، اس کے بعد ۲۹؍ مئی کو تفضّل حسین کا انکار بیجا ہے ناجائز ہے، یہ مکان مسجد کے لیے بیع ہو چکا، مسجد کی طرف سے قیمت ادا کر دیا جائے اور اس جگہ مسجد تعمیر کی جائے۔ عرفِ ناس شاہد ہے کہ لوگ معاملہ کی گفتگو کے وقت دام اور سامان کی مقدار طے کرتے ہیں، زبانی ایجاب و قبول (میں نے خریدا بیچا) نہیں کرتے، تو یہ بیع بطور تعاطی مبیع یا دام پر قبضے کے بعد تام ہوتی ہے، ہاں عوام میں اپنی زبانی گفتگو یعنی دام وغیرہ طے کر لینے کو بیع سمجھتے ہیں، مگر ان کی سمجھ کا کچھ اعتبار نہیں، اس لیے میری نگاہ میں صورتِ مسئولہ میں بیع کا انعقاد نہ ہوا۔ وھو تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved