8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص سوت بیچنے کا کام کرتا ہے اور وہ ہر میل کے تین بھاؤ رکھتا ہے۔ مثلاً ۲۰؍ کا بھاؤ نقد روپیہ سے ۱۲؍ رکھتا ہے، اور پرچی سے ۱۴؍ بھاؤ رکھتا ہے ، جو ادھار لینے آتا ہے اس سے کہتا ہے کہ تم کو ۱۳؍ روپیہ میں ملے گا۔ وہ شخص بطور رضا مندی ۱۳؍ میں لے جاتے ہیں تو اس صورت میں یہ بیاج یعنی سود میں شامل ہوا یا نہیں؟

فتاویٰ #1173

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجوابـــــــــــــــــ: ہر شخص کو اپنے مال کا اختیار ہے جس قیمت پر چاہے فروخت کرے، اسی طرح ہر خریدار کو اختیار ہے کہ اس قیمت پر راضی ہو تو خریدے، نہ راضی ہو تو نہ خریدے۔ شریعت مطہرہ میں بیع کی حقیقت ہی یہی ہے: البیع مبادلۃ المال بالمال بالتراضي۔ یعنی بیع باہمی رضا مندی کے ساتھ مال کا مال سے بدلنا ہے۔ بیع کی حقیقت ہی میں بیچنے والے اور خریدنے والے کی رضا مندی شامل ہے ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ بیچنے والے کو اپنے مال کا اختیار ہے، جس دام پر چاہے فروخت کرے۔ جس طرح خریدار کو پورا اختیار ہے کہ اس قیمت پر راضی ہو تو خریدے ورنہ نہ خریدے، اس لیے بھاؤ کیا جاتا ہے جو سنت ہے، اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ دونوں ایک دام پر راضی ہو جائیں۔ بیچنے والے کو مال کا پورا اختیار ہے کہ جس قیمت پر چاہے فروخت کرے تو نقد و ادھار میں فرق کرنے کا بھی اختیار ہے، مگر صحیح طریقہ کو اختیار کرے اور غلط طریقہ سے بچے۔ غلط طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی شخص نے ایک ہی بیع میں دو بیع کی اور یوں کہے کہ میں نے تیرے ہاتھ یہ چیز دس روپیہ نقد کو اور گیارہ روپیہ ادھار کو بیچی۔ خریدار کہے کہ میں نے خریدی، یہ منع ہے اور اگر علاحدہ علاحدہ کر کے بیچے کہ وہی چیز نقد دس روپیہ کو بیچے اور وہی چیز دوسری بیع میں گیارہ ادھار کر کے بیچے تو یہ جائز ہے [ مثلاً خریدار کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ نقد لے گاتو اسے اس کا دام دس روپے بتائے اور اگر یہ معلوم ہے کہ خریدار ادھار لے گا تو اسے گیارہ روپے کا دام بتائے ، تو یہ ایک عقد میں ایک ہی بیع ہے، نقد یا ادھارمرتب] کوئی حرج نہیں۔ ترمذی شریف میں ہے: عن أبي ھریرۃ قال نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعۃ.... والعمل علی ھذا عند أھل العلم وقد فسر بعض أہل العلم قالوا: ”بیعتین في بیعۃ“ أن یقول أبیعک ھذا الثوب بنقد بعشرۃ و بنسئۃ بعشرین ولا یفارقہ علی أحد البیعین، فاذا فارقہ علی أحدھما فلا باس إذا کانت العقدۃ علی واحد منھا۔ یعنی حضورﷺ نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا اور عمل اسی پر ہے اہل علم کے نزدیک، بعض اہل علم نے بیعتین فی بیعۃ کی یہ تفسیر فرمائی کہ دونوں کوجمع کر کے یوں کہے کہ میں نے تجھے یہ کپڑا نقد دس روپے میں، اور ادھار بیس میں بیچا اور علاحدہ علاحدہ نہ کہے، یہ صورت منع ہے۔ لیکن جب کہ علاحدہ علاحدہ کر کے ایک ہی پر عقد وارد کرے تو کوئی حرج نہیں، مثلاً جو شخص نقد لیتا ہے اس کو دس کو دے اور جو ادھار لیتا ہے اس کو بیس کو دے، تو یہ بیع علاحدہ علاحدہ ہے، لہٰذا کوئی حرج نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک ہی شخص کو ایک ہی بیع میں نقداور ادھار جمع کر کے بیچنا منع ہے ، مثلاً یوں کہے کہ یہ چیز تجھ کو نقد دس روپیہ میں اور ادھار گیارہ میں بیچی، یہ منع ہے اور علاحدہ علاحدہ فرق کر کے نقد دس اور ادھار گیارہ کو بیچنا جائز ہے ، کوئی حرج نہیں۔ پرچی اگر رسید یا چیک کے طور پر روپیہ کا کوئی تحریری ثبوت ہے تو اس میں کمی بیشی کا اختیار ہے ، حتی کہ نوٹ اور روپیہ میں بھی فرق کر سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ صورت منقولہ میں نرخ کا فرق کرنا تین صورتوں سے جائز ہے : مثلاً ۲۰؍ کا بھاؤ نقد روپیہ سے اٹھارہ روپیہ بارہ آنا اور پرچی اٹھارہ روپیہ چودہ آنہ اور ادھار انیس روپیہ بھاؤ رکھے مگر یہ نرخ ہے۔ لیکن جب بیع کرے علاحدہ علاحدہ کرے، نقد اور ادھار جمع نہ کرے۔ نقد دینے والے سے نقدی کی بیع کرے اور ادھار لینے والے سے ادھار ہی کی اور پرچی لینے والے سے پرچی ہی کی بیع کرے۔ تینوں صورتوں میں قیمت کا تفاوت جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved