زید نے اپنی مسجد کے مصلیان سے کہا کہ آپ لوگ چلیں میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں کیوں کہ مجھ سے راضی نہیں رہتی۔ لہٰذا مصلیان میں سے کچھ لوگوں کو لوا کر ان کے سامنے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اور حاجی جھبوں کے دریافت پر کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا ہے، کہا کہ ہاں چوں کہ وہ مجھ سے رضا مند نہیں تھی اس لیے طلاق دے دیا۔ ایسی صورت میں طلاق واقع ہوئی کہ نہیں۔ واضح ہو کہ اس موقع کے گواہ بھی موجود ہیں اور طلاق نامہ پر دستخب بھی زید کا ہے۔ بینوا توجروا۔