8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہندہ اپنے میکے میں تھی کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ کو دو ماہ ہوتے ہیں بہ ذریعہ تحریر طلاق نامہ بھیجا اور اس طلاق نامہ پر دو ماہ پہلے ہی کی تاریخ مرقوم ہے اور مہر و عدت باوجود تقاضا کرنے کے اب تک ادا نہیں کیا ہے ۔ اور اب طلاق نامہ کی تاریخ کے حساب سے عدت کا زمانہ ختم ہو گیا اور عدت و مہر زید نے ادا نہیں کیا ،تو کیا ہندہ اب از روے شرع عدت لینے کی مستحق ہے کہ نہیں ؟

فتاویٰ #1150

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: مطلقہ کی عدت کا نفقہ و ضروری مصارف شوہر پر واجب ہے ۔ مطلقہ کی عدت میں یہ تفصیل ہے کہ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضعِ حمل ہے ۔ قال تعالیٰ: ’’ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ؕ ‘‘ حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے اور اگر حاملہ نہیں اور حیض آتا ہے تو اس کی عدت تین حیض ہے ۔ قال تعالیٰ: وَ الْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ طلاق والی عورتیں اپنے نفسوں کو تین حیض تک روکیں ۔ اور اگر حیض نہیں آتا خواہ بچپن کی وجہ سے خواہ بڑھاپے کی وجہ سے ، یا سن بلوغ کو پہنچ گئی ہے مگر حیض آتا ہی نہیں تو اس کی عدت تین ماہ ہے۔ قال اللہ تعالیٰ: وَ الّٰٓـِٔيْ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ١ۙ وَّ الّٰٓـِٔيْ لَمْ يَحِضْنَ١ؕ یعنی جو عورتیں حیض سے ناامیدہوں ان کی مدت تین ماہ ہے اور وہ جن کو حیض نہیں آتا ان کی عدت بھی وہی تین ماہ ہے۔ لہٰذا اگر ہندہ حاملہ ہے تو اس کی عدت بچہ پیدا ہونے پر ختم ہوگی ۔ جب تک بچہ پیدا نہ ہوگا عدت باقی رہے گی اور اگر حاملہ نہیں تو تین حیض پورے ہونے پر عدت ختم ہوگی جب تک تین حیض ختم نہ ہوں گے عدت باقی رہے گی ، اگرچہ مدت طویل ہو جائے مہینوں سے شمار ہرگز نہ ہوگی ۔ اس مدت تک زید پر ہندہ کا نفقہ واجب ہے۔ اور اگر ہندہ کو بعدِ طلاق تین حیض آگئے تو عدت ختم ہو گئی، اب نفقہ نہیں کیوں کہ نفقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ عدت کے اندر تو شوہر پر واجب ہے ، دعویٰ کر کے بھی وصول کر سکتی ہے ، لیکن اگر عورت نے دعویٰ نہیں کیا، نہ قاضی نے مقرر کیا اور اسی طرح عدت گزر گئی تو نفقہ ساقط ہو گیا۔ (بہارِ شریعت) واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved