بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: زید کے اقوال مذکورہ میں سے ایک قول یعنی’’ تم میری نظر سے دور ہو جاؤ‘‘ الفاظ طلاق کنایہ کی ان قسموں میں سے ہے جوجواب اور رد دونوں کا احتمال رکھتے ہیں لہٰذا اگر زید نے خوشی کی حالت میں اس جملے کو کہا یا زوجہ نے اس سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا اس کے جواب میں اس نے کہا تھا اور بہر صورت اس سے طلاق کی نیت کی تھی تو اس پر طلاق بائن واقع ہوگئی۔اور اگر طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو کچھ نہیں اگر شوہر کی نیت معلوم ہوچکی ہو مثلا یوں کہا اور اس نے کسی سے اپنی مراد ظاہر کردی ہو کہ اس نے بقصد طلاق اس جملے کو کہا ہے تو عدت گزرنے کے بعد عورت عقدثانی کرسکتی ہے ۔ اور اگر اب تک شوہر کی نیت کا پتہ نہیں چلا تو اس سے مل کر معلوم کرنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ شرح و قایہ میں ہے : و نحو اخرجی و اذھبی و قومی یحتمل ردا۔ عالمگیری میں ہے : و مایصلح جواباً ورداً لا غیر اخرجی اذھبی اعزبی، قومی، تقنعی، استثری، تخمری الی قولہ ففی حالۃ الرضا لایقع الطلاق فی الالفاظ کلھا الابالنیۃ و القول قول الزوج فی ترک النیۃ مع الیمین و فی حالۃ مذاکرۃ الطلاق یقع الطلاق فی سائر الاقسام قضاء الا فیما یصلح جواباً ورداً فانہ یجعل طلاقاً کذا فی الکافی۔ زید کا یہ کہنا کہ تم ہماری ماں ہو ہم تمہارے بیٹے ہیں یاہم تمہارے شکم سے پیدا ہیں اس سے گناہ کے سوا کچھ نہیں ۔ ’’ عالمگیری جلد ثانی باب الظہار‘‘ میں ہے : ولو قال لھا انت امی لایکون مظاہرا و ینبغی ان یکون مکروہاً۔ زید کا اپنی زوجہ کا دودھ پینا حرام ضرور ہے مگر اس عمر میں اس فعل حرام سے حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ در مختار میں ہے : (و یثبت التحریم )فی المدۃ فقط۔ نیز اسی میں ہے: و لیم یبح الارضاع بعد مدتہ لانہ جزء الآدمی والانتفاع بجزء الادمی حرام علی الصحیح۔ شوہر کا یہ جملہ کہ ہم تمہیں نہیں چاہتے طلاق کنایہ نہیں ، [بہار شریعت بحوالہ فتاوی رضویہ ]۔ واللہ تعالی اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org