22 December, 2024


دارالاِفتاء


اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تم کو دو گواہوں کے سامنے طلاق دی تو ایسی صورت میں شریعتِ مطہرہ کا کیا حکم ہے ؟اور اگر اس نے دو بار یا تین بار کہا تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟ بینواتوجروا۔

فتاویٰ #1102

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اگر کسی شخص نے اپنی ایسی زوجہ سے جس سے خلوتِ صحیحہ ہو چکی ہے ، کہا کہ میں نے تجھ کو طلاق دیا اور یہ کلمہ صرف ایک مرتبہ کہا تو ایک طلاق رجعی واقع ہوگی، اور دو مرتبہ کہا تو دو طلاق رجعی۔ طلاقِ رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر اندر بغیر جدید نکاح کیے اس کو زوجیت میں واپس لے سکتا ہے۔ اور اگر تین مرتبہ کہا تو اب طلاق مغلظہ ہو گئی ، اب بغیر حلالہ کیے اس سے نکاح نہیں کر سکتا۔ وقال تعالیٰ: ’’ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ أوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ(الی قولہ تعالیٰ) فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ م بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہٗ۔‘‘ اور اگر وہ عورت ایسی ہے جس کے ساتھ اس کے شوہر نےخلوتِ صحیحہ نہیں کی ہے اور دو یا تین بار جدا جدا مذکورہ بالا کلمات طلاق کہے تو صرف ایک طلاق بائن واقع ہوگی باقی طلاق لغو ہو جائے گی۔ اس صورت میں اگر عورت راضی ہو تو شوہر اس سے نکاح کر سکتا ہے بغیر نکاح جدید اس کی زوجیت میں نہیں آسکتی۔ ہدایہ میں غیر مدخولہ عورت کے بارے میں ہے: ’’فان فرق الطلاق بانت بالاولیٰ ولم تقع الثانیۃ والثالثۃ۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved