8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک مقدمہ بجرم دفعہ ۴۹۸ تعزیرات ہند بعدالت جناب مجسٹریٹ بہادر بمقام چریا کوٹ دائر ہے ، جس کو ملزمان جھوٹا کہتے ہیں ۔ فریقین اہل سنت و جماعت حنفی ہیں ۔ عدالت موصوف کی منشا پر کہ (حافظِ ملت)شاہ عبد العزیز صاحب مبارک پوری جیسا فیصلہ مطابق شرع شریف فرما دیں گے ، اس کے مطابق عدالت فیصلہ کرے گی۔ صورت یہ ہے کہ (۱)ولی محمد دعوے دار ہے کہ اس کا نکاح ساتھ بشیرن دختر ثناء اللہ کے بحالتِ نابالغی ہر دو ہوا اور یہ نکاح بوکالت حافظ خیر اللہ ذریعہ ایک چٹھی منجانب پدر نابالغہ کہا جاتا ہے ہوا تھا۔ خیر اللہ مذکور ثناء اللہ کی بیوہ ماں کا شوہر ثانی ہے اور کوئی رشتہ نسبی و عصباتی نہیں ہے ۔ سوال اول یہ ہے کہ موقوف علیہ نکاح وکالت خیر اللہ ہے اور خیر اللہ کو وکالت اور نکاح ہر دو سے انکار محض ہے اور کوئی گواہ وکیل کرنا پدر نابالغہ کا خیر اللہ کو واسطے نکاح کے ساتھ ولی محمد کے بیان نہیں کرتا ۔ دو گواہ نصاب شہادت شرعاً ہیں ۔ جب یہ نہیں ہے، کیوں کر مثبت وکالت کہ مدار نکاح صورت مسئولہ عنہا میں ہے ہو سکتا ہے ۔ اس بارے میں فتویٰ کیا ہے ۔ مطابق آیتِ کریمہ وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ. سوال دوم:-مدعی وکالت لاکھ گواہ پیش کرے اوپر اثبات وکالت کے اور دو ان میں سے یہ نہ بیان کریں کہ ہمارے سامنے پدر نابالغہ نے خیر اللہ کو وکیلِ نکاح کیا، وکالت کیوں کر قبول شرعاً ہوگی؟ اس بارے میں فتویٰ کیا ہے؟ سوال سوم:-یہ ہے کہ ایک گواہ نے صرف عقد کا ہونا بوکالت خیر اللہ بیان کیا ، اس قدر بیان سے کیوں کر وکالت ثابت ہوگی، جب تک یہ بیان نہ کریں کہ ہمارے سامنے پدرِ نابالغہ نے خیر اللہ کو وکیل کیا تھا ، اس بارے میں فتویٰ کیا ہے؟ سوال چہارم:- یہ ہے کہ وکالت خیر اللہ گواہوں سے ثابت نہیں ہے علاوہ ازیں مشہود علیہا یعنی بشیرن کی تعریف نہیں کی بلکہ اس کا نام تک اور لفظ دختر تک اس کاغذ میں تحریر نہیں کیا اور ایجاب کسی نے منجانب وکیل بیان نہیں کیا اور قبول صرف ولی محمد کی زبان سے جو بر وقت نکاح نابالغ تھا، کہا جاتا ہے۔ اندریں حالات نکاح کیوں کر صحیح ہوگا۔ اس بارے میں فتویٰ کیا ہے؟ سوال پنجم:- ہر گاہ خیر اللہ وکالت اور عقد دونوں سے منکر ہے ، وکالت کے واسطے دو گواہ ضرور ہیں ۔ بحر الرائق میں ہے: ’’ولغیرھا رجلان أو رجل و امرأتان للآیۃ. أطلقہ فشمل المال وغیرہ کالنکاح والطلاق والوکالۃ والوصیۃ والعتاق والنسب۔‘‘ اس بارے میں فتویٰ کیا ہے؟ سوال ششم:-وکالت ان الفاظ سے منعقدہوتی ہے ۔ وکیل کیا میں نے تجھ کو اس بیع میں یا اس مقدمہ میں ، چناں چہ بیچ عالم گیری کے ہے: ’’و أما رکنھا فالألفاظ التي تثبت بھا الوکالۃ من قولہ و کلتک ببیع ھذا العبد أو شرائہ کذا فی السراج الوہاج۔‘‘ اس بارے میں فتویٰ کیا ہے؟ سوال ہفتم:-یہ ہے کہ شہادت عبد الحق نکاح خواں معتبر نہیں ، اس وجہ سے کہ وہ مباشر فعل ہے اور مباشر فعل کی شہادت جب وہ عین شہادت میں مباشرت فعل کا ذکر کرے غیر معتبر ہوگی، باعتبار عبارت فتاویٰ قاضی خان: ’’رجل تولیٰ تزویج امرأۃمن رجل ثم مات الزوج فانکرت ورثتہ نکاحھا یجوز للذی تولی العقد ان یشہد بالنکاح یشھد ان فلانا تزوج فلانۃ بمھر کذا ولا یذکر انہ باشر العقد۔‘‘ اور بموجب آیتِ کریمہ:’’ وَاَشْھِدُوْٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ.‘‘ یعنی اپنے معاملات پر گواہ کر لیا کرو، نہ یہ کہ خود اپنے قول و فعل پر گواہ ہو جایا کرو، پس اس سے معلوم ہوا کہ اصل شہادت گواہی اوپر فعل دوسرے کا نام ہے ۔ اس بارے میں فتویٰ کیا ہے؟ سوال ہشتم:-یہ ہے کہ بر بناے وجوہِ مذکورہ نکاح ہوا یا نہیں ، اگر ہوا تو شرعاً ثابت ہوتا ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ثابت ہوتا تو اس کے تعصب یا جہالت کے سبب بموجب حکم شرع اسلام ایسی عورت نابالغہ کو جس کا نکاح ثابت نہیں مدعی کو حوالہ کرنے کا حکم داخلِ گناہِ عظیم ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1089

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: ولی محمد کا یہ دعویٰ کہ اس کا نکاح بوکالت حافظ خیر اللہ مسماۃ بشیرن بنت ثناء اللہ کے ساتھ بحالت نابالغی ہر دو ہوا اور حافظ خیر اللہ کی وکالت بذریعہ چٹھی منجانب پدر نابالغہ ثناء اللہ قرار پائی، بوجوہ ثابت نہیں ۔ اول یہ کہ خیر اللہ کی وکالت ہی ثابت نہیں ، کیوں کہ خیر اللہ کی وکالت کا مدار مدعی نے صرف چٹھی قرار دیا ہے، اور ظاہر ہے کہ چٹھی بذریعہ ڈاک آئی ہوگی اور اس کے متعلق دو معتبر شخص یہ شہادت دے ہی نہیں سکتے کہ یہ ثناء اللہ نے ہمارے سامنے خود لکھی یا کسی سے لکھائی ہے اور یہ وہی چٹھی ہے ۔ یہ اسی وقت ہو سکتا تھا جب کہ وہ شاہد خود چٹھی لے کر آتے اور وہ چٹھی ان سے جدا نہ ہوتی۔ ڈاک سے آئی ہوئی چٹھی کے متعلق شرعاً یہ وثوق و اعتماد نہیں ہو سکتا کہ یہ ثناء اللہ ہی کی ہے ، کیوں کہ :الخط یشبہ الخط۔ فقہ کا مشہور مسئلہ ہے اور جعلی خطوط کے صدہا واقعات اس پر شاہد ہیں ۔ نیز اس تقدیر پر کہ یہ خط ثناء اللہ کا فرض بھی کیا جائے تب بھی بشیرن نابالغہ دختر ثناء اللہ کے نکاح کی وکالت خیر اللہ کے لیے ثابت نہ ہوگی۔ کیوں کہ چٹھی میں بشیرن کا نام تک نہیں ، نہ تصریح توکیل جیسا کہ سوال چہارم سے ظاہر ہے ۔ مزید بر آں خیراللہ نکاح، وکالت دونوں سے انکار کرتا ہے اور عبد الحق نکاح خواں کا یہ قول کہ ’’میں نے نکاح پڑھایا‘‘ عقد نکاح کی شہادت نہیں کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ توکیل در توکیل ہے ، یعنی خیر اللہ کی اجازت سے نکاح پڑھایا اور خیر اللہ کو جب خود ہی وکالت حاصل نہیں جیسا کہ اوپر مذکور ہوا اور سوالات سے بھی ظاہر ہے تو خیر اللہ کو عبد الحق کے وکیل بنانے کا کیا حق ہے۔ لہذا اس میں عبد الحق شاہد نہیں ، بلکہ نکاحِ فضولی کا مدعی ہے ۔ دوسرے یہ کہ عقد نکاح کا گواہ صرف ایک ہے اور ایک گواہ سے صرف شبہۂ شہادت ہوتا ہے نہ کہ شہادت ، لہذا ثبوتِ نکاح نہیں ہوا۔ تیسرے یہ کہ عقدِ نکاح کے لیے ایجاب و قبول دونوں ضروری ہیں اور جب کہ گواہ ایجاب بیان ہی نہیں کرتا تو صرف ولی محمد نابالغ کے قبول سے نکاح کیسے منعقد ہو سکتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ صورتِ مستفسرہ میں کسی تقدیر پر بھی ثبوتِ نکاح نہیں اور فریق ثانی ولی محمد کے دعوے کی تکذیب کر رہا ہے ، لہٰذا اس صورت میں بشیرن نابالغہ دختر ثناء اللہ کو ولی محمد دعوے دارکے حوالے کر دینا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved