25 November, 2024


دارالاِفتاء


نفل کا تنہا ایک روزہ رکھنا کیسا ہے، مکروہ یا ناجائز اور اگر مکروہ ہے تو تحریمی یا تنزیہی؟ بہت سے لوگ شعبان المعظم کی پندرہ تاریخ کا روزہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دن کو ایک روزہ رکھنا اور رات کو عبادت کرنا حدیث سے ثابت ہے ،اس لیے دوسرے دن کا روزہ رکھنا کوئی ضروری نہیں۔بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1012

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــ: نفل کاایک روزہ رکھنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ہاں تنہا جمعہ یا تنہا شنبہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔ حدیث شریف میں ہے: لا یصوم أحدکم یوم الجمعۃإلاأن یصوم قبلہ أو یصوم بعدہ۔ ) ( دوسری حدیث میں ہے: لا تصوموا یوم السبت إلا فیما افترض علیکم۔ ) ( امام ترمذی ارشاد فرماتے ہیں: ومعنی الکراہۃ في ھذا أن یختص الرجل یوم السبت بصیام لأن الیہود یعظمون یوم یوم السبت۔ ) ( بعض نفل روزے تنہا مستحب ہیں یومِ عرفہ ، یوں ہی شش عید کے روزے کہ ان کی تفریق مستحب۔ خود سرورِ عالم ﷺ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ۔ حدیث میں ہے : أن رسول اللہ ﷺ قال: تعرض الأعمال یوم الإثنین والخمیس فأحب أن یعرض عملي وأنا صائم۔ ) ( دوسری حدیث میں ہے: وصیام یوم عرفۃ إني أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التي بعدہ، والسنۃ التي قبلہ ۔ ) ( و صیام یوم عاشوراء إني أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التي قبلہ۔ ) ( ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن روزہ نہ رکھنے کو حضور نے اعدل الصیام فرمایا ہے ۔ اور فرمایا کہ: لا أفضل من ذلک۔ ) ( اس سے کوئی افضل نہیں ہے۔ درِ مختار میں ہے: وندب تفریق صوم السبت من شوال۔) ( شوال کے چھ روزوں کو جدا جدا رکھنا مستحب ہے ۔ لیلۃ النصف من شعبان کے فضائل بہت مذکور ہیں اور دن میں روزہ رکھنا حدیث سے ثابت ہے ۔ اس کے ساتھ ایک دن اورملانا کسی حدیث سے ثابت نہیں ، بلکہ یہ روزہ بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ( فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved