8 September, 2024


دارالاِفتاء


السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کیا فرمائے ہیں علماء کرام و مفییان شرع عظام مسئلہ ذیل میں کہ زید ایک عالم دین ہے اور امامت کے منصب پر فائز ہے بقول صدر مسجد کے امام صاحب سنن و واجبات مستحبات ترک کرتے ہیں ۔ تو اب امام صاحب پر کیا حکم شرع عائد ہوگا؟ اور کیا امام صاحب کے پیچھے نماز ہو جائے گی ؟ مزید یہ ارشاد فرما دیں کہ اس بنا پر امام صاحب سے مقتدیوں کو اظہار ناراضگی اختیار کرنا کیسا ؟

فتاویٰ #990

بسم اللہ الرحمن الرحیم الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) مسجد کمیٹی کے صدر نے امام صاحب کا جو حال بیان کیا ہے وہ افسوس ناک ہے، اگر واجب اور سنت مؤکدہ کا ترک امام صاحب کی عادت ہو اگرچہ وہ سنن و واجبات نماز کے سوا کے ہوں تو امام صاحب کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے جسے دوبارہ پڑھنا واجب و لازم ہے اس وجہ سے امام سے مقتدیوں کی ناراضگی بجا ہوگی۔ مستحبات کا ترک نہ چاہیے اولی یہی ہے مگر اس کی وجہ سے کوئی عذاب یا عتاب یا فسق وغیرہ کا حکم نہ ہوگا ایک یا دو بار کسی واجب یا سنت کے ترک سے کوئی سخت گرفت نہ ہوگی، نہ ہی امامت مکروہ تحریمی قرار پائے گی اور ترک تین بار یا زیادہ ہو جائے تو وہ قابل مواخذہ و گرفت ہے۔ کوئی نادراً سنت مؤکدہ کا ترک کرے تو مستحق عتاب ہے اور اس کی عادت بنا لے تو مستحق عذاب ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک کی عادت ترک واجب کے حکم میں ہے اور واجب کا ایک بار قصدا چھوڑنا گناہ صغیرہ ہے اور چھوڑنے کی عادت بنا لینا گناہ کبیرہ اور فقہا فرماتے ہیں کہ جو شخص علانیہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے وہ فاسق معلن ہے اس لیے جو شخص تین بار یا زیادہ کوئی واجب ترک کرے تو وہ فاسق معلن ہوگا جس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے، غنیہ میں ہے: لو قدموا فاسقا یاثمون بناء علی ان کراھة تقدیمه کراھة تحریم درمختار میں ہے: کل صلاۃ ادیت مع کراھة التحریم تجب اعادتھا امام صاحب کو چاہیے کہ ہرگز ہرگز کوئی واجب ترک نہ کریں اور کوشش کریں کہ سنت مؤکدہ بھی ترک نہ ہونے پائے کہ تین بار سنت مؤکدہ کے ترک سے آدمی گناہ گار ہو جاتا ہے اور تین بار واجب کے ترک سے گناہ کبیرہ سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ اور علانیہ مستحبات کا ترک بھی امام کو نہ چاہیے عوام میں ابھی اس قدر حیات باقی ہے کہ وہ خود جیسے بھی ہوں مگر اپنے امام اور پیشوا کو ورع اور تقوی کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں، یوں بھی شریعت نے اورع و اتقی کو امامت کے لیے احق بتایا ہے اس لیے امام صاحب عوام کی ناراضگی سے کبیدہ خاطر نہ ہوں بلکہ اپنی شخصیت کو ان کے سامنے تقوی شعار ثابت کریں۔ یہ تو واجبات اور سنن و مستحبات کے ترک کا حکم ہوا۔بواللہ تعالی اعلم۔ (2) مگر سوال میں جن دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے اب ہم ان پر بھی تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں: مسواک سنت مؤکدہ ہے اور جب دانت صاف، بو سے پاک ہو تو مسواک نہ ہونے کی صورت میں دانتوں پر انگلی ملنا بھی کافی ہے۔ مسواک میں دو سنتیں ہیں ایک درخت کی تر شاخ ہونا، مثلا زیتون، پیلو یا نیم کی شاخ دوسرے دانتوں کو صاف کرنا۔ ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانتوں کو صاف کرنے کی سنت ادا ہو جاتی ہے مگر پہلی سنت ادا نہیں ہوتی کہ برش درخت کی تر شاخ یا مسواک نہیں ہے، مسواک تو زیتون، پیلو اور نیم وغیرہ کی تر شاخ ہوتی ہے اور برش سے پیلو وغیرہ کی افادیت بھی حاصل نہیں ہو پاتی اس لیے مسواک کی سنت اس سے حاصل نہیں ہوتی۔ مگر آج کے زمانے میں لوگ کثرت سے برش اور ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتے ہیں جو عوام و خواص سب میں رائج و مشترک ہے اور سب کا معمول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پیلو وغیرہ کی مسواک ہر جگہ اور ہر علاقے میں کثرت سے دست یاب نہیں جب کہ برش اور ٹوتھ پیسٹ ہر علاقے میں اور ہر جگہ کثرت کے ساتھ دست یاب یے لوگوں نے سہولت و آسانی کے پیش نظر اسے اختیار کر لیا اور انھیں اس کا احساس بھی نہیں رہا کہ وہ اس بارے میں سنت کا ایک جز چھوڑ رہے ہیں، بلکہ بعض علما نے تو اسے اداے سنت کے لیے کافی بھی سمجھا اور ایک حد تک اس سے سنت ادا بھی ہوتی ہے تاہم اصل مسواک جو پیلو وغیرہ کی تر شاخ کا نام ہے وہ غفلت و بے توجہی کے باعث یک گونہ چھوٹ رہی ہے۔ اس تشریح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ مسواک کا اصل مقصود تو ٹوتھ پیسٹ اور برش سے ادا ہو جاتا ہے جس سے دانت صاف ہو جاتا ہے اور منھ میں بو نہیں رہ جاتی اس لیے اگر کوئی شخص اسی پر اکتفا کرے تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ سنت مؤکدہ کا تارک ہے اور اس کا عادی ہونے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہے اور اس کی وجہ سے اس کی امامت میں خرابی لازم آ رہی ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ مسلمانوں کو مسواک کی سنت بالکل ترک نہیں کرنی چاہیے خاص طور پر عالموں، اماموں اور پیروں کو اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے تاکہ حضور جان نورﷺ کی یہ سنت زندہ رہے اس حیثیت سے عوام مسلمین اگر امام کو مسواک کا خوگر دیکھنا چاہتے ہیں تو اچھی بات ہے مگر یہ بات بس پسندیدگی کی حد تک رہنی چاہیے۔ اور مسجد میں جاتے وقت پہلے داہنا قدم اندر داخل کرنا اور واپس آتے وقت داہنا قدم آخر میں نکالنا مسجد کے آداب سے ہے امام صاحب کو اس کا لحاظ کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کے اتباع سنت کی عظمت بیٹھے۔ مختصر یہ کہ بات اگر پیلو وغیرہ کی مسواک، ٹوتھ پیسٹ، برش اور مسجد کے ادب مذکور تک ہے تو امام فاسق نہیں اسے امام بنانا جائز اور اس کے پیچھے نماز درست ہے عوام خود بھی ان باتوں کی پابندی کریں اور امام صاحب بھی پابند ہوں اور اس طرح کے امور میں ایک دوسرے کو نرمی کے ساتھ توجہ دلائیں اور اعتراض سے بچیں۔ اور اگر واقعی امام صاحب سنن موکدہ اور واجب ترک کرتے ہوں تو مجمع عام میں اس سے توبہ کریں اور وعدہ کریں کہ اب ایسی تقصیر نہیں کریں گے اور سنن موکدہ اور واجبات کے پابند ہو جائیں تو مسلمان ان کی امامت برقرار رکھیں ورنہ معذرت کر لیں، واقعہ کیا ہے مجھے معلوم نہیں اس لیے ہم نے ہر صورت کا حکم بیان کر دیا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ املاہ: محمد نظام الدین رضوی صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ، مبارک پور 4؍صفر 1443ھ 12؍ستمبر 2021ء

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved