21 November, 2024


دارالاِفتاء


(۱) زید نصاب زکات تک، یا اس سے زیادہ گائے، بھینس پال کر اس کے دودھ سے تجارت کرتا ہے، ان جانوروں کی زکات کی ادایگی کس طرح ہوگی؟ مفصل تحریر فرمائیں۔ (۲) زید کے پاس گاے اور بھینس اتنی ہے کہ نصاب زکات کو پہنچ جائے اور وہ ان جانوروں کا دودھ خود استعمال کرتا ہے، اور بچا ہوا دودھ فروخت کرتا ہے جس کی قیمت وقت ضرورت زراعت میں اور کبھی اپنے مصرف میں لاتا ہے، ان جانوروں کی زکات کس طرح اداکی جائے گی؟ بینوا بالحق والصواب حاجی جان محمد قادری قریشی، محلہ گریڈیہ، بہار ۳؍ رجب المرجب ۱۴۰۶ھ

فتاویٰ #2651

بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (۱) زکات صرف تین قسم کے مال پر واجب ہے: (۱) سونا چاندی، (۲) چرنے والے جانور، یعنی اونٹ، گائے، بھینس، بکری ، دنبہ، بھیڑ اگر سال کے اکثر حصہ میں چرائی پر گزارہ کرتے ہوں ـــ رہ گئے وہ جانور جن کو گھر باندھ کر سال کے اکثر حصہ میں چارہ کھلایا جاتا ہے تو ان پر زکات نہیں ــــ (۳) اور مال تجارت۔ اب اگر زید ان بھینسوں کو سال کے اکثر حصہ میں چارہ کھلاتا ہے تو ان جانوروں کی زکات زید پر واجب نہیں خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔ اور اگر زید ان جانوروں کو سال کے اکثر حصے میں چرائی پر رکھتا ہے اور وہ تیس سے کم ہوں تو بھی ان میں زکات نہیں ۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: هي شرعا ( المكتفية بالرعي المباح في أكثر العام لقصد الدر والنسل والزيادة والسمن. (تنویر الأبصار المطبوع مع الدر المختار ، ص:۱۹۶ ، ۱۹۷ ، ج:۳ ، کتاب الزکاۃ، باب السائمہ ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت.) نیز اسی میں ہے: نصاب البقر والجاموس ثلاثون سائمۃ۔(تنویر الأبصار المطبوع مع الدر المختار، ص:۲۰۳ ، ج:۳ ، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ البقر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) ہاں! اگر زید کے پاس اتنی رقم جمع ہو گئی جو بقدر نصاب ہے اور اس پر سال گزر جائے تو اس زائد رقم پر زکات واجب ہے۔ بقدر نصاب کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس چھپن روپے بھرچاندی یا اس کی قیمت کے نوٹ جمع ہو جائیں، اس بھاو سے جو زکات نکالتے وقت بازار کا ہو ۔ نوٹ سونے چاندی کے حکم میں ہیں، اس لیے کہ یہ ثمن اصطلاحی ہیں ۔ اور اگر یہ جانور سال کا اکثر حصہ چرائی پر گزارتے ہوں اور تیس یا تیس سے زائد ہوں تو ان میں زکات ہے ۔ غالباً یہ جانور بھینسیں ہوں گی ۔ اب اگر تیس بھینسیں ہوں تو سال بھر کا ایک بچھڑا یا بچھیا واجب ہے۔ اور اگر چالیس ہوں تو ان میں دو سال کا ایک بچھڑا یا ایک بچھیا ۔ اس سے زائد ہوں تو دوبارہ سوال کر کے پوچھا جائے اور اگر یہ جانور بھینس اور گاے کے علاوہ کچھ اور ہوں تو بھی دوبارہ سوال پوچھا جائے۔ (۲) پہلے ہی سوال کے جواب سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ جانوروں میں زکات واجب ہونے کے لیے قیمت کا اعتبار نہیں بلکہ ان کی تعداد کا اعتبار ہے، نیز یہ کہ ان کا گزارہ سال کے اکثر حصہ میں چرائی پر ہوتا ہے، یا گھر باندھ کر کھلانے پر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دودھ خود کھاتا ہے یا بیچتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved