21 November, 2024


دارالاِفتاء


کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل سوالات کے بارے میں کہ : مالک نصاب کس شخص کو کہا جائے گا ، زید نے مالک نصاب کی یہ تعریف کی کہ : جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا اس کی قیمت کی اس کے پاس جائداد موجود ہو مثلا زمین ، گاے، بھینس، باغ وغیرہ تو اس کو مالک نصاب کہتے ہیں۔ اور عمرو نے مالک نصاب اس شخص کو بتایا ہے کہ : جس کے پاس اتنا غلہ ہو کہ سال بھر اپنی ضروریات کو پوری کر کے بچ جائے تو وہ شخص مالک نصاب کہلاتا ہے۔ اور اس پر قربانی بھی واجب ہے اور صدقۂ فطر بھی ۔ اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ آیا زید کی تعریف درست ہے یا عمرو کی ؟ قرآن واحادیث کی روشنی میں ان دونوں کی منازعت کو دفع فرما کر مالک نصاب کی تعریف اور صاحب نصاب مذکور شخصوں کو کہا جائے گا کہ نہیں جواب مرحمت فرمائیں۔ جس کاشت کار کے پاس پانچ بیگھہ زمین ہو اور اس کے پاس چاندی سونا روپے پیسے کچھ بھی نہ ہوں تو اس شخص کو مالک نصاب کہہ سکتے ہیں کہ نہیں جب کہ وہ اس زمین سے پورے سال کا غلہ نہیں دستیاب کر پا رہا ہے بلکہ دو چار مہینے کا غلہ خریدنا پڑتا ہے تو کیا وہ قربانی اور صدقۂ فطر ادا کرے گا؟ میر سلیمان، مقام کٹم پوسہ، پوسٹ عمل جھاڑی، وایا اسلام پور، دیناج پور، بنگال

فتاویٰ #2628

میں اس وقت سفر کے لیے پا بہ رکاب ہوں چوں کہ قربانی کا وقت ہے؛ اس لیے مختصر جواب پر اکتفا کرتا ہوں ۔ دلائل اور تفصیل اگر سائل کو مطلوب ہوں تو پھر سوال بھیجے ، ان شاء اللہ تعالی حتی الوسع مدلل مفصل جواب حاضر کر وں گا۔ جو شخص اتنی زمین کا مالک ہے کہ اس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے وہ ضرور مالک نصاب ہے البتہ اس پر زکات واجب نہیں کیوں کہ زکات واجب ہونے کے لیے مال نامی ہونا شرط ہے زمین مال نامی نہیں۔ اب رہ گیا یہ کہ اس زمین کی پیداوار اتنی نہیں جو سال بھر ا س کے اور اس کے اہل وعیال کے کھانے کے لیے کافی ہو اس بارے میں ہمارے علما کے تین قول ہیں: (۱) اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے (اگر اس کی قیمت بقدر نصاب ہو)۔ (۲) یہ کہ واجب نہیں (اگر اس سے اتنا غلہ پیدا ہو جو سال بھر تک کھانے پینے کے لیے کافی ہو تو واجب ہے) ۔ (۳) یہ کہ اگر ایک مہینے کے لیے کافی ہو تو واجب ہے۔، رد المحتار میں ہے: ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا ، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم ، وقيل قوت شهر ، فمتى فضل نصاب تلزمه، ولو العقار وقفا(رد المحتار،ج:۹،ص:۴۵۳، کتاب الأضحیۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)۔ دربارۂ عبادات احتیاط پر عمل واجب ہے اس لیے خادم قول اول کو راجح سمجھتا ہے۔ لعل اللہ یحدث بعد ذلک أمرا۔[’’لعل اللہ یحدث بعد ذلک أمراً‘‘ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ تعالی نے خداے کریم سے جو لو لگائی تھی اس کی توفیق وہ کسی بندۂ کم علم کو دے دے تو اس کے فضل سے کوئی بعید نہیں۔ شریعت نے زکات اور قربانی مالک نصاب پر ہی واجب کی ہے۔ فرق یہ ہے کہ زکات کےلیے نصاب نامی لازم کیا ہے اور زمین شرعا نصاب نامی نہیں اس لیے اس پر زکات واجب نہیں۔ لیکن قربانی اور صدقۂ فطر کے لیے نصابِ نامی کی حاجت نہیں اس لیے زمین کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو قربانی واجب ہوگی خواہ اس سے غلہ جتنا بھی پیدا ہو، غلہ تو معیار نصاب نہیں۔ یہ قول اول کی توجیہ ہے۔ لیکن کاشت کی زمین سے مقصود غلہ حاصل کرنا ہوتا ہے جس سے کھانے پینے کا انتظام ہو سکے، کھانے کا غلہ حوائج اصلیہ سے ہے اس لیے جب غلہ سال بھر کے لیے کافی ہوگا تو ’’زمین کا نصاب‘‘ حوائج اصلیہ سے فارغ ہوگا لہذا اس صورت میں مالک زمین پر قربانی واجب ہوگی، آخر چاندی، سونے اور روپے کے نصاب پر بھی زکات اسی وقت فرض ہوتی ہے جب وہ حوائج اصلیہ سے فارغ ہوں تو وہ قانون صدقہ فطر میں بھی جاری ہوگا۔ اور اگر اس حیثیت سے دیکھا جائے کہ – زمین کاشت سے غنا کا حکم ’’حوائج اصلیہ سے فارغ ہونے کی شرط‘‘ سے بے نیاز ہے کیوں کہ زمین سے غلہ کم پیدا ہو یا زیادہ، بہر حال مالک زمین پر عشر واجب ہے۔ تو ایک ماہ کا غلہ پیدا ہونا بھی قربانی کے وجوب کے لیے کافی ہوگا، کیوں کہ سال کے بارہ اجزا ہیں تو کم سے کم غلہ ایک ماہ کے لیے تو کافی ہو، زیر بحث مسئلے کا تعلق ’’غلہ پیدا کرنے والی زمین‘‘ سے ہے تو ’’أقل ما یطلق علیہ الاستغلال‘‘ قوت شھر ہے۔ یہ تیسرے قول کی توجیہ ہوئی۔ مگر اس قول کی تعمیر بہت ہی ضعیف بنیاد پر کی گئی ہے کیوں کہ عشر کے مسئلے میں شریعت نے زمین کی قیمت کا قطعی کوئی اعتبار نہیں کیا ہے، بلکہ زمین کو پوری مالیت کے ساتھ عفو کے خانے میں رکھا ہے اس لیے پیداوار کم ہو یا زیادہ، اس پر عشر واجب کیا ہے تاکہ فقرا کو زمین کی پیداوار سے کچھ تو ملے ورنہ وہ بےچارے بہت سی صورتوں میں بالکل محروم رہ جاتے، شریعت نے باب عشر میں قیمت زمین کو قطعی معیار نہیں بنایا، جب کہ قول ثالث میں وہی معیار ہے اور قوت شھر تو شرط ہے۔ تینوں اقوال کے دلائل کی تخریج اور تجزیہ سے بخوبی عیاں ہوجاتا ہے کہ قول اوسط ہی سب میں راجح وقوی ہے اس لیے فتوی اسی پر جاری ہونا چاہیے ،خیر الأمور أوسطہا۔ ہم اللہ عز وجل کا بے پناہ شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ فقہ وفہم عطا فرمائی، وہو الموفق۔ ۱۲۔ محمد نظام الدین رضوی ، ۱۸؍ رمضان ۱۴۴۳ھ، بعد فجر] اور اگر زمین اتنی ہے کہ اس کی قیمت نصاب سے زائد ہو تو بہر حال قربانی وصدقۂ فطر ضرور واجب ہے جیسا کہ ابھی رد المحتار سے گزرا۔ پانچ بیگھے زمین کی قیمت آج کل سب سے کم قیمت نصاب یعنی چاندی کے نصاب سے ضرور زائد ہے اس لیے جس کے پاس پانچ بیگھہ زمین ہو اس پر بہر حال قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے بلکہ ہمارے دیار میں ایک بیگھہ کھیت کا بھی یہی حکم ہے۔ پالتو جانور دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن کو اس لیے پالا جاتا ہے کہ ان کا دودھ بیچاجائے، یا ان کو کرایے پر دیا جائے، یا کرایے کی بیل گاڑی یا یکہ میں جوتا جائے، ایسے جانوروں کی قیمت اگر بقدر نصاب ہو یا زائد تو ان کے مالک پر صدقۂ فطر وقربانی واجب ہے۔ اور اگر وہ گھر کے کام کے لیے پالے گئے ہیں مثلا اس لیے کہ گھر والے دودھ کھائیں، یا گھر کے کھیت جوتے جائیں، یا گھر کا سامان ڈھویا جائے تو ان میں تفصیل ہے جو فرصت کے وقت میں عرض کی جائے گی۔واللہ تعالی اعلم ۔۶؍ ذی الحجہ ۱۴۰۰ھ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved