دو بیگھہ کھیت سے اگر اتنی پیداوار ہو جاتی ہے کہ جن لوگوں کا نفقہ زید پر ہے ان سب کو کافی ہو تو زید پر صدقۂ فطر واجب ہے اور قربانی بھی، ورنہ نہیں ۔ توضیح یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کے پاس اتنی چاندی نہیں جو بقدر نصاب ہو، اور نہ اتنے روپے ہیں جن کی قیمت سے اتنی چاندی مل سکے جسے موجودہ چاندی میں ملانے کے بعد چاندی کے نصاب کو پہنچ سکے، ہاں! دونوں کے پاس کھیت اتنا ہے جس کی قیمت نصاب سے بہت زیادہ ہے اس میں صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہے۔ اور شرط یہ ہے کہ زمین سے اتنا غلہ پیدا ہوتا ہو جو اہل وعیال کے سال بھر کے نفقہ کو کافی ہوتا ہو، اور یہاں اہل وعیال سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہو، اس لیے مدار کا راس پر ہے کہ پیدا وار کتنی ہوتی ہے۔ البتہ ان میں سے کسی پر زکات واجب نہیں، کھیت کی پیداوار پر عشر واجب ہے؛ اس لیے کہ زکات کے لیے مال نامی ہونا شرط ہے اور کھیت مال نامی نہیں۔ صدقۂ فطر اور قربانی کے لیے اتنا مال ہونا کافی ہے جو دین اور حوائج اصلیہ سے فارغ ہو اور ظاہر ہے کہ اس زمانے میں دو بیگھہ کھیت کی قیمت کئی نصاب کو پہنچ جائے گی۔ واللہ تعالی اعلم۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org