جائز زیب وزینت کے سامان اور تفریح کے سامان حوائج اصلیہ سے ہیں، الفتاوی الھندیہ میں ہے: وکذا طعام أہلہ وما یحتمل بہ من الأواني إذا لم یکن من الذھب والفضۃ وکذا الجوھر واللؤلؤ والیاقوت والزمرد ونحوہا(الفتاوی الھندیۃ، ص: ۱۹۰، ج:۱،کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیرہا وصفتہا ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔)۔ یہ زیب وزینت کے لیے خاص جزئیہ ہے ، اسی پر قیاس کر کے جائز تفریح کے سامان کا بھی یہی حکم ہے اور اگر بالفرض یہ حوائج اصلیہ سے نہ بھی ہوں تو بھی ان پر زکات نہیں۔ زکات صرف مال نامی پر ہے جو تین قسم میں منحصر ہے۔ (۱) مال تجارت (۲) سوائم (۳) سونے اور چاندی ۔ ان کے علاوہ اور کسی مال میں زکات نہیں۔ اسی میں ہے: ومنھا کون النصاب نامیا حقیقۃ أو تقدیرا، وینقسم کل واحد منھما إلی قسمین خلقي، وفعلي۔ وأما الخلقي الذھب والفضۃ فتجب الزکاۃ فیھما نوی التجارۃ أو لم ینو أصلا أو نوی النفقۃ۔ والفعلي ما سواھا، ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ أو الإسامۃ (الفتاوی الھندیۃ، ص: ۱۹۲، ج:۱،کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیرہا وصفتہا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔)۔ فرق یہ ہوگا کہ چوں کہ یہ حوائج اصلیہ سے ہیں اس لیے ان کے ہوتے ہوئے اگر ان کے علاوہ حوائج اصلیہ سے فارغ مال بقدر نصاب نہیں تو ان کو زکات بھی لینا جائز، اور ان پر نہ صدقۂ فطر واجب اور نہ قربانی۔ اور یہ حوائج اصلیہ میں سے نہ ہوتے تو ان کے ہوتے ہوئے انھیں زکات لینا جائز نہ ہوتا، اور ان پر صدقۂ فطر واجب ہوتا اور قربانی بھی۔ واللہ تعالی اعلم۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org