دونوں صورتوں میں کرایے سے جو آمدنی ہو اس پر زکات ہے اگر وہ بقدر نصاب سال بھر تک محفوظ رہے۔ بجلی وغیرہ کے سامان جو اس نے کرایہ پر دینے کے لیے خریدے ہیں اس سامان کی قیمت پر زکات نہیں اور نہ ٹرک پر ہے۔ ان کے کرایے سے جو آمدنی ہو اور وہ سال بھر بقدر نصاب محفوظ ہو اور دین سے فارغ ہو تو صرف اس پر زکات ہے ۔ بجلی کے جو سامان کرایے پر دینے کے لیے خریدے گئے یا جو ٹرک کرایے پر چلانے کے لیے خریدا گیا ان کی حیثیت صنعت کاروں کے آلات کی ہے۔ جیسے بڑھئی کے اوزار، درزی کی مشین، یا کرایے کے مکان، یا کرایے پر اٹھانے والی دیگیں ۔ ان سب میں زکات نہیں۔ الفتاوی الھندیہ میں ہے: ولو اشتری قدورا من صفر یمسکہا ویؤاجرھا لا تجب فیہا الزکاۃ کما لا تجب فی بیوت الغلۃ(الفتاوی الھندیۃ، ص: ۱۹۸، ج:۱،کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الذہب والفضۃ، الفصل الثاني في العروض، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔)۔ واللہ تعالی اعلم ۔۲۵؍ ذو قعدہ ۱۴۱۳ھ(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org