22 November, 2024


دارالاِفتاء


زید نے ایک دکان کھولی، اس میں اس نے اس طرح سامان بنائے جو کرایے پر چلائے۔ مثلا بجلی کی سجاوٹ کی بتیاں ہیں ، قمقمے ہیں، راڈ ہیں وغیرہ وغیرہ تو کیا سالہا سال بکر پر مندرجہ بالا اشیا کی قیمت کی زکات واجب ہوگی یا نہیں ؟ یا کسی نے ٹرک خریدا وہ اس کو کرایے پر چلاتا ہے تو ٹرک کی قیمت پر ہر سال زکات واجب ہوگی یا اس کی آمدنی پر؟ محمد ذکی برکاتی، دار العلوم برکاتیہ نوید الاسلام، قصبہ دگہر، شیر پور، بستی ، یوپی

فتاویٰ #2619

دونوں صورتوں میں کرایے سے جو آمدنی ہو اس پر زکات ہے اگر وہ بقدر نصاب سال بھر تک محفوظ رہے۔ بجلی وغیرہ کے سامان جو اس نے کرایہ پر دینے کے لیے خریدے ہیں اس سامان کی قیمت پر زکات نہیں اور نہ ٹرک پر ہے۔ ان کے کرایے سے جو آمدنی ہو اور وہ سال بھر بقدر نصاب محفوظ ہو اور دین سے فارغ ہو تو صرف اس پر زکات ہے ۔ بجلی کے جو سامان کرایے پر دینے کے لیے خریدے گئے یا جو ٹرک کرایے پر چلانے کے لیے خریدا گیا ان کی حیثیت صنعت کاروں کے آلات کی ہے۔ جیسے بڑھئی کے اوزار، درزی کی مشین، یا کرایے کے مکان، یا کرایے پر اٹھانے والی دیگیں ۔ ان سب میں زکات نہیں۔ الفتاوی الھندیہ میں ہے: ولو اشتری قدورا من صفر یمسکہا ویؤاجرھا لا تجب فیہا الزکاۃ کما لا تجب فی بیوت الغلۃ(الفتاوی الھندیۃ، ص: ۱۹۸، ج:۱،کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الذہب والفضۃ، الفصل الثاني في العروض، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔)۔ واللہ تعالی اعلم ۔۲۵؍ ذو قعدہ ۱۴۱۳ھ(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved