21 November, 2024


دارالاِفتاء


زید اپنے مال وزیورات کی زکات نکالنے سے بچنے کے لیے سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی ساری ملکیت کا مالک اپنی بیوی کو بنا دیتا ہے، اور پھر دوسرا سال مکمل ہونے سے پہلے اس کی بیوی زید کو مالک بنا دیتی ہے ۔ اس طرح کسی پر حولان حول نہیں ہوتا اور نہ زکات نکالنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ زید مدارس دینیہ اورغربا ومساکین پہ خوب خرچ کرتا ہے مگر کہتا ہے کہ مال تجارت یا زیورات کے مکمل حساب کرنے کی پریشانیوں سے بچنے کے لیے نیز حساب میں غلطی کے امکان کے پیش نظر عذاب الہی سے بچنے کے لیے ملکیت کی تبدیلی کرتا ہوں ۔ کیا شریعت میں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ محمد ضمیر الدین، کیراف محمد نعمت حسین، امام ہاسٹل مسجد، کلکتہ، بنگال

فتاویٰ #2603

ایک حکم قضا کا ہے اور ایک حکمِ دیانت ۔ حکم قضا ظاہر پر ہوتا ہے ہر شخص اپنی املاک کا مالک ومختار ہے وہ جب جسے چاہے اپنی بعض یا کل املاک ہبہ کر دے، شرعا اس سے ممانعت نہیں۔ زید اگر ایسا کرتا ہے اور وہ سال گزرنے سے پہلے اپنی ساری املاک اپنی بیوی کو اس طرح ہبہ کر دیتا ہے کہ اس پر سے اپنا قبضہ اٹھا کر بیوی کو قبضہ دےدیتا ہے تو واقعی اس کے اموال پر حولان حول نہیں ہوتا اور زکات اس پر واجب نہیں۔ مگر چوں کہ وہ ایسا زکات سے فرار کے لیے کرتا ہے اس لیے دیانۃً سخت معیوب اور ناپسندیدہ ہے ۔ زکات فرض ہے اور اسلام کے ارکان میں سے ہے، اس کی ادایگی میں جو ثواب ہے وہ نفلی صدقات میں نہیں، اس سے فرار سخت معیوب، نا پسندیدہ۔ ایسے لوگوں کو اصحاب سبت کے قصے سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ حضرت موسی علیہ الصلاۃ والتسلیم کی شریعت میں سنیچر کو شکار کرنا حرام تھا، کچھ یہودی دریاے اردن کے کنارے آباد تھے، من جانب اللہ آزمائش میں مبتلا کیے گئے کہ سنیچر کے دن مچھلیاں بکثرت ظاہر ہوتیں۔ پانی کی بالائی سطح پر تیرتی رہتیں اور دوسرے دونوں میں غائب ہو جاتیں۔ انھوں نے دریا کے کنارے ایک بڑا گڑھا کھود لیا جس کا تعلق دریا سے رکھا، جمعہ کی شام میں نالی کا راستہ کھول دیتے جس سے گڑھے میں پانی آتا جس کے نتیجے میں سنیچر کے دن مچھلیاں بکثرت گڑھے میں آجاتیں۔ یہ لوگ سنیچر کی شام کو اس نالی کا منھ بند کر دیتے اور پھر اتوار کو گڑھے سے مچھلیاں پکڑ لیتے۔ اس چالاکی پر وہ سب بندر بنا دیے گئے۔ یہ بہانہ کہ حساب کتاب دشوار ہے عذر لنگ ہے، لین دین کے لیے تو حساب میں کوئی دشواری نہیں اور اللہ کے لیے زکات دینے کے لیے بہانہ بازی؟ بہر حال چوں کہ حکم شریعت ظاہر پر ہے اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص تارک فرض ہے۔ اور نیت کا حال اللہ عز وجل جانتا ہے وہ اس کے مطابق اپنے بندوں کے ساتھ جیسا چاہے معاملہ کرے۔ واللہ تعالی اعلم-۱۷؍ ذو قعدہ ۱۴۱۱ھ ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved