22 November, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص تجارت کرتا ہے ، رہنے کے لیے مکان ہے، اور دکان کرنے کے لیے بھی تین کمرے ہیں، ایک کمرہ میں تجارت کرتا ہے دو کو بھاڑے پر دے دیا ہے۔ تو کیا ان دونوں کمروں کی مالیت لگا کر اس مالیت پر زکات نکالے، یا جو ان دونوں کمروں سے کرایہ ملتا ہے صرف اس رقم کی زکات نکالے؟ محمد سلیمان قادری، نیشنل میڈیکل ہال،رتسڑ، بلیا، یوپی- ۳؍ ربیع الآخر ۱۴۰۶ھ

فتاویٰ #2594

کرایے کے مکانوں پر زکات نہیں یعنی اگر مکان یا دکان کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو اس مکان، یا دکان کی وجہ سے زکات واجب نہ ہوگی، زکات صرف مال نامی پر ہے اور مال نامی تین ہیں: سوائم ، نقدین (سونا، چاندی) مال تجارت۔ (در مختار ورد المحتار) ہاں اگر کرایہ کی رقم اتنی جمع ہو جائے جو بقدر نصاب ہو یا دوسرے روپے کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر بھی زکات واجب ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved