8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید جو تقریباً چار پانچ سال سے منصب امامت پر فائز ہے ، پابند شرع ہے، سنی صحیح العقیدہ ہے ، ماشاء اللہ عالم دین بھی ہے لیکن شادی شدہ نہیں ہے ۔ تقریبا ۲۴؍ ۲۵؍ سال کی عمر ہے ، شادی کا منکر بھی نہیں ہے ، وقت کا انتظار ہے لیکن کچھ مقتدیوں کو اعتراض ہے کہ بغیر شادی شدہ امام کے پیچھے نماز درست نہیں اور امام صاحب بہار شریعت کا حوالہ دیتے ہیں کہ امامت کے شرائط میں سے کوئی شرط ایسی نہیں کہ امام کا شادی شدہ ہونا ضروری ہو۔ لہذا مقتدیوں کا نماز سے احتراز کرنا کہاں تک درست ہے؟

فتاویٰ #1887

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امام کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری نہیں، بالغ ہونا ضروری ہے۔ حضرت مصعب بن عمیر کو حضور اقدس ﷺ نے قبل ہجرت مدینہ طیبہ بھیجا اور وہ وہاں امامت کرتے تھے اور ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے محدثین اور اولیاے کرام ایسے گزرے ہیں جنھوں نے مدت العمر شادیاں نہیں کیں، مثلاً امام بخاری، حضرت محبوب الٰہی، حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی وغیرہ وغیرہ اور یہ سب امامت فرماتے تھے۔ اگر امام بالغ ہونے کے ساتھ دیگر شرائط امامت کا جامع ہے، تو اس کے پیچھے نماز بلا کراہت صحیح ہے۔ حتی کہ امرد جس کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہوتی ہے، اگر وہ اس عمر کو پہنچ جائے تو فقہا فرماتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے۔ چناں چہ علامہ شامی نے حاشیہ مدنی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ: علامہ شیخ عبدالرحمٰن بن عیسی مرشدی، شیخ احمد بن یونس معروف بہ ابن شلبی اور مفتی محمد تاج الدین قلعی ﷭کی خدمت میں یہ سوال پیش ہوا کہ ایک شخص بیس برس کا ہوچکا ہے، لیکن ابھی اسے داڑھی نہیں آئی ہے، صرف تھوڑی پر چند بال نکلے ہیں، تو کیا وہ امرد کے حکم میں نہیں؟ اور اس کی امامت کا وہی حکم ہے جو کامل مردوں کی امامت کا ہے؟ تو ان بزرگوں نے اس کے پیچھے بلا کراہت نماز جائز ہونے کا فتویٰ دیا۔ شامی کی عبارت یہ ہے: وَفِي حَاشِيَۃِ الْمَدَنِيِّ عَنْ الْفَتَاوَى الْعَفِيفِيَّۃِ : سُئِلَ الْعَلَّامَۃُ الشَّيْخُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عِيسَی الْمُرْشِدِيُّ عَنْ شَخْصٍ بَلَغَ مِنْ السِّنِّ عِشْرِينَ سَنَۃً وَتَجَاوَزَ حَدَّ الْإِنْبَاتِ وَلَمْ يَنْبُتْ عِذَارُہُ، فَھَلْ يَخْرُجُ بِذٰلِكَ عَنْ حَدِّ الْأَمْرَدِيَّۃِ، وَخُصُوصًا وَقَدْ نَبَتَ لَہُ شَعَرَاتٌ فِي ذَقَنِہِ تُؤْذِنُ بِأَنَّہُ لَيْسَ مِنْ مُسْتَدِيرِي اللِّحَی، فَھَلْ حُكْمُہُ فِي الْإِمَامَۃِ كَالرِّجَالِ الْكَامِلِينَ أَمْ لَا؟ أَجَابَ: سُئِلَ الْعَلَّامَۃُ الشَّيْخُ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ الْمَعْرُوفُ بِابْنِ الشَّلَبِيِّ مِنْ مُتَأَخِّرِي عُلَمَاءِ الْحَنَفِيَّۃِ عَنْ ھَذِہِ الْمَسْأَلَۃِ، فَأَجَابَ بِالْجَوَازِ مِنْ غَيْرِ كَرَاھَۃٍ۔ وَنَاھِيك بِہِ قُدْوَۃً، وَاَللَّہُ أَعْلَمُ . وَكَذَلِكَ عَنْہَا الْمُفْتِي مُحَمَّدُ تَاجُ الدِّينِ الْقَلَعِيُّ فَأَجَابَ كَذَلِكَ اھ ۔ جس نے یہ کہا کہ جس کی شادی نہ ہوئی ہو وہ امامت نہیں کر سکتا اس نے اپنے جی سے نئی شریعت گڑھی، ایسے لوگوں کے لیے حدیث شریف میں فرمایا: ما بال أقوام یشترطون شروطا لیس في کتاب اللہ۔ کیا حال ہے ایسے لوگوں کا جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ اس شخص پر توبہ فرض ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved