8 September, 2024


دارالاِفتاء


کیا فرماتے ہیں علماے دین اس بارے میں کہ : ایک شخص نے جس کی داڑھی ایک مشت سے بھی کم ہے، خطبۂ جمعہ میں منبر شریف پر کھڑے ہو کر یہ کہا کہ ’’انسان کو ہدایت دینا اور لینا صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اس کے سوا کسی نبی رسول یا ولی کو نہیں ہے اور ہمارے آقا ومولیٰ احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کے اختیار میں بھی نہیں ہے‘‘۔ کیا ایسے الفاظ استعمال کرنا صحیح ہے؟ کیا ایسے شخص کو اپنا امام یا قاضی شہر یا خطیب بنا کر اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور ان کے جیسا عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟ قرآن وحدیث اور فقہ کی روشنی میں مطمئن جواب دیں۔

فتاویٰ #1854

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- پہلی بات یہ ہے کہ جب امام کی داڑھی ایک مشت سے کم ہے اور وہ کتروا کر ایک مشت سے کم کراتا ہے تو فاسق معلن ہے۔ حدیث میں ہے:اعفوا اللحی۔ فتح القدیر پھر شامی میں ہے: أما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما يفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم يبحہ أحد ۔ اس کی وجہ سے یہ شخص فاسق معلن ہوا، اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ ہے ۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ شخص وہابی معلوم ہوتا ہے اور اس نے یہ جو بیان کیا کہ ’’انسان کو ہدایت دینا اور لینا صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اس کے سوا کسی نبی، رسول یا ولی کو نہیں ہے اور ہمارے آقا ومولی احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ کے اختیار میں بھی نہیں ہے۔‘‘ یہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن کریم میں حضور اقدس ﷺ کے لیے فرمایا: ’’ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍؒ۰۰۷ ‘‘۔ آپ ہر قوم کو ڈرانے والے اور ہدایت دینے والے ہیں۔ قرآن کریم کے لیے فرمایا : ’’ اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ ‘‘۔ بےشک یہ قرآن اس راستے کی جانب ہدایت دیتا ہے جو سیدھا ہے ۔ اور فرمایا : ’’ هُدًى لِّلنَّاسِ ‘‘ قرآن لوگوں کے لیے ہدایت دینے والا ہے۔ اگر یہ وہابی ہے تو اس کے پیچھے نماز قطعاً درست نہیں، نہ اس کی نماز نماز ہے نہ اس کے پیچھے کسی کی نماز صحیح۔ اس کو فورا امامت سے معزول کیا جائے، بلکہ وسعت ہو تو بستی سے باہر کر دیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved