8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) -ایک شخص جو کہ محفل سماع باجے کے ساتھ سنتا ہے، ایسے شخص کی گواہی عند الشرع مقبول ہے یا مردود اور وہ امامت کے لائق ہے یا نہیں حالاں کہ وہ اپنے پیر کے حکم سے سنتا ہے اور کوئی شرعی عیب نہیں ہے۔ (۲) -پوچھنے پر وہ یہ کہتا ہے کہ عشق مجازی ہی عشق حقیقی کا زینہ ہوتا ہے، یہ مجازی حال ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

فتاویٰ #1851

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) -اگر سماع کے جواز کی شرطیں یہاں موجود بھی ہوں تاہم جب یہ سماع مزامیر پر مشتمل ہے باجے بجتے ہیں تو ایسی محفل سماع کا انعقاد ناجائز وحرام وگناہ ہے [حاشیہ: رد المحتار میں ہے: وفي التتارخانية عن العيون إن كان السماع سماع القرآن والموعظة يجوز ، وإن كان سماع غناء فهو حرام بإجماع العلماء، ومن أباحه من الصوفية فلمن تخلى عن اللهو ، وتحلى بالتقوى ، واحتاج إلى ذلك احتياج المريض إلى الدواء . وله شرائط ستة : أن لا يكون فيهم أمرد ، وأن تكون جماعتهم من جنسهم ، وأن تكون نية القول الإخلاص لا أخذ الأجر والطعام ، وأن لا يجتمعوا لأجل طعام أو فتوح ، وأن لا يقوموا إلا مغلوبين وأن لا يظهروا وجدا إلا صادقين. والحاصل : أنه لا رخصة في السماع في زماننا لأن الجنيد رحمه الله تعالى تاب عن السماع في زمانه ا هـ(ج:۹، ص:۵۰۳، کتاب الحظر والإباحۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) محمود علی مشاہدی]اور جو اس میں شرکت کرے وہ حرام کا مرتکب اور گنہ گار وفاسق معلن ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور اقدس سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ نے شراب اور جوا اور ڈھول حرام کیا ۔ (بیہقی شریف) دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: صوت اللہو و الغناء ینبت النفاق في القلب کما ینبت الماء النبات۔ یعنی لہو اور غنا سے نقاق دل میں ایسے اگتا ہے جیسے پانی سے نبات۔ در مختار میں ہے: ’’استماع صوت الملاہي کضرب قصب ونحوہ حرام لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ۔ ’’استماع الملاہي معصیۃ والجلوس علیہا فسق والتلذذ بہا کفر‘‘ أي بالنعمۃ فالواجب کل الواجب أن یجتنب کي لا یسمع اھ ملخصاً جب یہ شخص اس فعل حرام وگناہ کی وجہ سے فاسق معلن ہو گیا تو اب اس کی گواہی نا مقبول اور اس کو امام بنانا گناہ ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے جو نمازیں پڑھی جائیں گی ان کو لوٹانا واجب ہے ۔ غنیہ میں ہے: لو قدموا فاسقا یاثمون بناء علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریممٍ۔ اور در مختار میں ہے: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا۔ جب یہ شخص ان معاصی سے باز آجائے توبہ کر لے تو پھر اس کو امام بنایا جاسکتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۲) -یہ صحیح ہے کہ عشق مجازی عشق حقیقی کا زینہ ہے۔ عارف جامی فرماتے ہیں: متاب رُو از عشق گرچہ مجازیست کہ آں بہر حقیقی کارسازیست لیکن عشق مجازی کے لیے مزامیر سننا کیا ضروری ہے، حضرات چشتیہ کے سرخیل محبوب الٰہی نظام الشریعۃ والطریقۃ والدین نے فرمایا: ’’مزامیر حرام است‘‘۔ پھر یہ زمانہ فتنے کا ہے، عشق مجازی اس زمانے میں اکثر ہویٰ و ہوس کا نام ہے۔ عشق مجازی واقعی اگر عشق ہو اور عاشق پاک بازہو اور ہوس میں آلودہ نہ ہو، اور محبوب کو مِرأۃِ جَمال خدا وندی(جَمال خدا وندی کا آئینہ) سمجھے، پھر کوئی مرشد برحق دست گیری فرمائے تو عشق حقیقی کا زینہ بنتا ہے۔ ورنہ دنیا و آخرت کی بربادی کا سبب۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved