----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- شریعت میں منافق اس کو کہتے ہیں جو زبان سے اسلام کا اقرار کرے، اور دل میں کفر چھپائے رکھے، اس معنی کر اب کسی کو منافق کہنا جائز نہیں۔ یہ صرف حضور اقدس ﷺ کے زمانے تک خاص تھا کہ حضور اقدس ﷺ غیب داں تھے۔ دلوں کا حال جانتے تھے۔ حضور اقدس ﷺ کے بعد اب کسی کا کسی کو منافق کہنا منع ہے۔ کسی کو منافق کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے کافر کہا، کسی سنی مسلمان کو کافر کہنے میں دو احتمال ہے: اگر صرف گالی کی نیت سے کہا تو کہنے والا گنہ گار ہوا۔ اور اگر منافق بمعنی کافر اعتقاد کرکے اس کو کہا تو کہنے والا کافر۔ در مختار میں ہے: (وَعُزِّرَ) الشَّاتِمُ (بِيَا كَافِرُ) وَہَلْ يَكْفُرُ إنْ اعْتَقَدَ الْمُسْلِمَ كَافِرًا ؟ نَعَمْ، وَإِلَّا لا۔ مگر عرف عام میں منافق اس شخص کو بھی کہتے ہیں جس کا قول و فعل دو رُخا ہو، اس معنی کر کسی مسلمان کو منافق کہنا گالی ہے، اور کہنے والا گنہ گار ہے۔ اس نے کسی سنی مسلمان کو منافق کہا اگر علانیہ کہا ہے تو کہنے والا کم از کم فاسق معلن ضرور ہے۔ اسے امام بنانا جائز نہیں۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ۔ اور اگر کسی سنی مسلمان کو بمعنی شرعی منافق جان کر اسے منافق کہا تو اب کہنے والا مسلمان ہی نہیں، نہ اس کی نماز، نماز۔ نہ اس کے پیچھے کسی کی نماز صحیح۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنا قضا کرنے کے حکم میں ہے، بلکہ اس سے بدتر۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org