8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) امام صاحب کو جگانا مؤذن کی شرعی ذمہ داری ہے یا اخلاقی؟ مؤذن کہتا ہے: اب تک ہم اخلاقاً جگاتے رہے، اب نہیں جگائیں گے۔ (۲) زید ایک مسجد کا تقریباً ایک سال سے مؤذن ہے، وہ اپنی داڑھی، مونچھ میں کالا خضاب لگاتا ہے، دعا تعویذ کا دھندا بھی کرتا ہے، حجرے میں جو مسجد کے بالائی حصے میں ہے، جس میں مسجد سے گزر کر داخل ہونا پڑتا ہے، مسلم اور غیر مسلم مردوں عورتوں کو بٹھاتا ہے، بلکہ ان کے لیے مصلی بچھا کر پنکھا چلا کر مسجد میں بٹھاتا ہے، عورتوں کے سلسلے میں زید نے برجستہ کہا کہ مسجد میں عورتیں آسکتی ہیں، امام صاحب سے پوچھ لیجیے۔ امام صاحب نے کہا: کیا ایسی عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے جن کو پاکی و ناپاکی بھی معلوم نہیں؟ کبھی کبھی زید اور آنے والی عورتوں میں تنہائی بھی ہوتی ہے۔ اسے مؤذن رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں وہ امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟ جواز یا عدم جواز ظاہر ہوجانے کے بعد ذمہ داری کن لوگوں پر آتی ہے؟ نیز اگر فتویٰ پڑھنے کے بعد بھی ٹرسٹیان، مؤذن کو نہ ہٹائیں تو ان کے لیے کیا حکم نافذ ہوگا۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1762

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) مؤذن پر فرض یا واجب نہیں کہ امام کو نماز کے لیے جگائے، وہ جگاتا تھا یہ اس کی مہربانی تھی، امام صاحب پر خود فرض ہے کہ نماز کے وقت میں بیدار ہوجائیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) مؤذن جب بالوں میں کالا خضاب لگاتا ہے، تو فاسق معلن ہے، اسے مؤذن رکھنا جائز نہیں، اگر وہ اذان کہے تو اس کا دہرانا ضروری اور اسے امام بنانا ناجائز، اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔ آسیب وغیرہ کے ازالہ کے لیے جائز اعمال کرنا جائز ہے۔ اور کسی مسلمان سے بدگمانی حرام، حسن ظن رکھنا واجب۔ البتہ کافرہ عورتوں کو مسجد سے گزرنے دینا جائزنہیں، اسی طرح جو عورتیں حالت حیض میں ہوں ان کو مسجد میں بٹھانا، مسجد سے گزرنے دینا ناجائز و حرام ہے۔ ٹرسٹیان پر واجب ہے کہ مؤذن کو حکم دیں کہ بالوں میں کالا خضاب لگانے سے توبہ کرے، اور آیندہ ہرگز ہرگز نہ لگائے۔ اسی طرح عورتوں کو مسجد میں نہ آنے دے، اسے کیا پتا کہ کون عورت حائضہ ہے کون نہیں، بلکہ اب تو یہ بھی بتانا مشکل ہوگا کہ کون کافرہ ہے کون مسلمہ۔ مؤذن مان جائے فبہا، ورنہ ٹرسٹیوں پر واجب ہے کہ بلا تاخیر اس کو مؤذن کے عہدے سے برطرف کردیں، نہیں کریں گے تو گنہ گار ہوں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved