8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) کیا امام سے مقتدی کچھ کہنے کا حق دار نہیں ہے؟ (۲) کیا امام، مقتدی کا انتظار کرسکتا ہے؟ جب کہ وقت مقررہ پر دو مقتدی اور امام موجود ہیں؟ کیا ایسی صورت میں امام وقت مقرر سے دس منٹ بعد نماز پڑھائے تو یہ پڑھانا کیسا ہے؟ ایک امام صاحب نے مقررہ وقت سے دس منٹ دیر سے نماز پڑھائی۔ وقت پورا ہونے پر ایک مقتدی نے امام صاحب کو مطلع کیا تو امام صاحب نے کہا مقتدیوں کا انتظار کر رہا ہوں، جب کہ مقتدیوں کی تعداد بہت تھی، ایسے امام کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ (۳) امام نماز میں برابر اپنے پیر کو حرکت دیتا ہے۔ اور داہنے پیر کا انگوٹھا بھی برابرچلتا رہتا ہے۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ داہنے پیر کے انگوٹھے کا قائم رکھنا سنت ہے یا مستحب؟ (۴) کیا کسی ناظرہ خواں کو مولانا کہا جاسکتا ہے؟ لوگ اس کو مولانا کہہ کر بلائیں اور وہ مولانا کہنے سے خوش بھی ہو، تو اس شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ #1743

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) امام مقتدی سے ہر اچھی بات کہہ سکتا ہے۔ مگر لایعنی، مہمل اعتراضات کی اجازت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) امام کسی مصلحت کی بنا پر جماعت کے لیے جو وقت مقرر ہے، اس میں جلدی اور تاخیر کر سکتا ہے۔ وقت مقرر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت نماز قائم کرنا فرض یا واجب ہے۔ اس میں امام آگے پیچھے بھی کر سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳) نماز میں بلا ضرورت جسم کے کسی حصے کو ہلانا خشوع و خضوع کے منافی ہے۔ اور اگر اتنے حصے میں کسی بیماری کی وجہ سے اضطراری طور پر حرکت ہوتی رہتی ہے تو کوئی حرج نہیں۔ نماز میں تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کسی بھی عضو کا ایک جگہ ٹِکا رہنا ضروری نہیں۔ اس میں بلا وجہ بہت تکلف ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۴) بےپڑھے لکھے، جس کی بھی داڑھی ہوتی ہے، یا شریعت کا پابند ہوتا ہے، اس کو مولانا کہتے ہیں، اس عرف کے اعتبار سے لوگ امام صاحب کو مولانا کہتے ہیں، خصوصا ایسی صورت میں جب کہ وہ امام بھی ہو، وعظ و تقریر بھی کرتا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved