22 December, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص بہ نام حافظ و قاری عبدالعزیز، قصبہ بیندور میں ناظرہ قرآن مجید کے لیے مدرس ہے، ساتھ ساتھ ایک وقت کی امامت اور جمعہ کے دن وعظ و بیان کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ مذکورہ شخص اپنے نام کے ساتھ لفظ مولوی بھی لکھتا ہے۔ مذکورہ شخص جمعہ کے دن ایسی ایسی باتیں بیان کرتا ہے، جنھیں ہماری عقل تسلیم نہیں کرتی۔ مثلاً وہ اپنے بیان میں کہتا ہےکہ: حضرت غوث پاک کی فضیلت، حدیث مقدس میں آئی ہے۔ عذاب قبر کا منکر مومن ہے مگر اس کے ایمان میں تردد ہے۔ قبر میں حساب و کتاب ہوگا۔ جس کے دل میں ذرا برابر ریا ہے، وہ مشرک ہے۔ بغیر وسیلے کےکوئی بھی عمل قبول نہیں ہوتا۔ اور آیت کریمہ: يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْکا ترجمہ اس طرح کرتا ہے:یہودی خدا کو جانتے ہیں پہچانتے نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا شخص عند الشرع وعظ و بیان کا اہل ہے یا نہیں؟ اور مولوی کہا جائےگا یا نہیں؟ نیز ایسے شخص کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور جو ایسے مولوی کے وعظ و بیان کی تائید کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا کہا جائےگا؟ اطمینان بخش جواب سے نوازیں، عین نوازش ہوگی۔ بینوا تؤجروا۔

فتاویٰ #1637

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- سائل کے الزامات اگر صحیح ہیں تو یہ شخص نہ اس لائق ہے کہ امام بنایا جائے اور نہ اسی لائق کہ اس سے وعظ کہلایا جائے۔ بلکہ بعض وجوہ سے اس پر کفر لازم ہے۔ اس نے آیت کریمہ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ کے ترجمہ میں دو غلطیاں کی ہیں: ایک تو یہ کہ يَعْرِفُوْنَهٗ کی ضمیر کا مرجع حضور اقدس ﷺ ہیں۔ يَعْرِفُوْنَ کا ترجمہ یہ ہے: پہنچانتے ہیں۔ آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’اہل کتاب حضور اقدس ﷺ کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو‘‘۔ اور اس نے اس کا ترجمہ کیا: ’’یہود اللہ کو جانتے ہیں پہچانتے نہیں‘‘۔ اگر یہ بوجہ جہالت ہے، تو سخت حرام و گناہ، اور اگر جان بوجھ کر ہے تو کفر۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved