----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- نابینا کی امامت اس وقت مکروہ تنزیہی ہے جب کہ نمازیوں میں اس سے زیادہ کوئی امامت کا مستحق ہو مثلا اس سے زیادہ علم والا ہو۔ اور اگر نابینا ہی نمازیوں میں سب سے زیادہ امامت کا مستحق ہے مثلا یہ سب سے زیادہ علم والا ہے سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہے، یا یہ سب سے زیادہ قرآن مجید صحیح پڑھتا ہے تو ادنی سی بھی کراہت نہیں۔ بلا کسی کراہت کے نابینا کی امامت درست ہے۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: ویکرہ تنزیہا إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی إلا أن یکون غیر الفاسق أعلم القوم فہو أولی (إلی أن قال) إن وجد غیرہم وإلا فلا کراہۃ۔ بلکہ شامی میں تصریح کی ہے کہ اگر اعمی انکھیارے سے افضل ہو تو حکم بالضد ہے یعنی یہ نابینا جو افضل ہے اسے چھوڑ کر غیر افضل کو امام بنانا مکروہ ہوگا۔لکھتے ہیں : لکن ما بحثہ في البحر صرح بہ في الاختیار حیث قال: لو عدمت أي علۃ الکراہۃ بأن کان الأعرابي أفضل من الحضري، والعبد من الحر، وولد الزنا من ولد الرشدۃ، والأعمی من البصیر فالحکم بالضد۔ اہـ ۔ ونحوہ في شرح الملتقي للبہنسي وشرح درر البحار۔ حضور اقدس ﷺ جب غزوۂ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی جگہ امام بنا کر گئے حالاں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ موجود تھے۔ مشکوۃ شریف میں بحوالہ ابی داؤد یہ حدیث ہے: وعن أنس -رضي اللہ تعالی عنہ- قال استخلف رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- ابن أم مکتوم یؤم الناس وہو أعمی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ابن مکتوم کو اپنا جانشیں بنایا وہ لوگوں کی امامت کرتے حالاں کہ وہ نابینا تھے۔ اس کی شرح میں حضرت ملا علی قاری نے مرقات میں لکھا: قال التورپشتي: استخلفہ علی الإمامۃ حین خرج إلی تبوک مع أن علیا رضي اللہ تعالی عنہ فیہا۔ تورپشتی نے کہا: عبد اللہ بن ام مکتوم کو سرکار نے امام بنایا جب کہ حضور غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تھے۔ حالاں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ میں موجود تھے۔ ایسی صورت میں جب کہ یہ نابینا تمام نمازیوں سے زیادہ امامت کا مستحق ہے اسی کو امام بنایا جائے اگر اس کے علاوہ کسی دوسرے غیر احق کو امام بنائیں گے تو یہ شرعاً غلط کام ہوگا۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org