8 September, 2024


دارالاِفتاء


(الف) حضور ﷺ اقامت شروع ہونے کے بعد تشریف لاتے تھے یا پہلے اگر اقامت شروع ہونے کے بعد تشریف لاتے تھے تو تشریف لا کر صفوں کی اصلاح اور اس کی درستگی میں مشغول ہو جاتے تھے یا (ب) تشریف لا کر مصلی پر بیٹھ جاتے تھے اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر قیام فرماتے تھے ۔ (ج) اور اقامت سے پہلے تشریف لاتے تھے تو (د) اقامت کے وقت کھڑے رہتے تھے یا (ہ) مصلے پر بیٹھ جاتے تھے اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت کھڑے ہوتے تھے۔ (و) لا تقوموا حتی تروني ۔ حضور نے کب اور کیوں ارشاد فرمایا تھا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ (ز) سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ۔ کیا ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر قیام کرنے سے اس حدیث کو معطل کرنا لازم نہیں آتا؟ (ح) ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت یا اس سے پہلے کھڑا ہونا استحبابی مسئلہ ہے یا فرض اور واجب؟ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ سے پہلے کھڑا ہونے والا فرض کا تارک ہے یا مستحب کا؟ -----بدر احمد مجیبی پھلواری کا جواب-----الجواب ــــــــــــ: رسول اللہ ﷺ عموماً اقامت سے قبل مسجد میں تشریف لے آتے تھے حضرت بلال منتظر رہتے۔ جب آپ حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لاتے تو حضرت بلال آپ کو دیکھ کر اقامت شروع کر دیتے۔ حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے : قال: کان بلال یوذن ثم یمہل فإذا رأی النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- قد خرج أقام الصلاۃ۔ (أبو داؤد ، جلد اول، باب في الأذان ینتظر الإمام) (الف، ب) کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اقامت شروع ہونے کے بعد تشریف آوری ہوتی۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ تشریف لانے سے قبل اقامت شروع ہو چکی تھی اور صفیں درست ہو رہی تھیں اس وقت حضور ﷺ حجرہ سے باہر تشریف لائے مگر اس حدیث سے بیٹھنے کا ثبوت نہیں ہے بلکہ تعدیل صف کا ذکر ہے۔ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے : أقیمت الصلاۃ فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- ۔ ( مسلم،ص:۲۲۰) (ج، د، ہ) قبل اقامت یا اقامت کے درمیان آپ کا حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لا کر مصلی پر بیٹھ جانا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ اقامت شروع کرتے ہی صفیں درست کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ امام ابن شہاب زہری سے مروی ہے : إن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللہ أکبر اللہ أکبر یقیم الصلاۃ یقومون الناس إلی الصلاۃ فلا یاتي النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- مقامہ حتی یعدل الصفوف۔ (مصنف عبد الرزاق،ص:۵۰۷) یہ حدیث مرسل ہے یعنی اس میں تابعی براہ راست نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور مرسل احادیث احناف، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک مطلقاً قابل قبول اور قابل احتجاج ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں : قال مالک في المشہور عنہ وأبو حنیفۃ وأصحابہ وغیرہم من أئمۃ العلماء کأحمد في المشہور عنہ: إنہ صحیح مجتہد بہ، بل حکم ابن جریر إجماع التابعین بأثرہم علی قبولہ۔ (و) بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اقامت شروع ہو گئی اور حجرۂ مبارکہ سے تشریف آوری سے قبل ہی صحابہ کھڑے ہو گئے ایسے ہی کسی موقع پر باہر تشریف آوری سے قبل کھڑے ہو جانے سے منع فرما دیا گیا کہ جب مجھے حجرہ سے نکلتا ہوا دیکھو اس وقت کھڑے ہونا۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی مشہور حدیث ہے : اذا أقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی تروني۔ (ترمذی شریف،ص:۷۶) یہ حدیث اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ امام مسجد میں موجود نہیں ہے مؤذن نے اقامت شروع کر دی ہے تو اب مقتدی حضرات کب کھڑے ہوں اس حدیث سے وضاحت ہوئی کہ جب تک امام کو آتا ہوا دیکھ نہ لیں کھڑے نہ ہوں اور جب امام کو دیکھ لیں تو پھر بیٹھے نہ رہیں۔ کھڑے ہو جائیں اقامت شروع ہونے کے بعد امام آیا ہے اور اس کو دیکھنے کے باوجود ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے انتظار میں بیٹھے رہنا اس حدیث کے خلاف ہے ۔ علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: لابد فیہ من التقویم بتقدیرہ لا تقوموا حتی تروني خرجت فإذا رأیتموني خرجت فقوموا۔(عمدۃ القاری شرح بخاری، ص:۶۷۶) تمام شراح حدیث اور فقہاے کرام بھی حدیث ابی قتادہ کو مسجد میں امام کی عدم موجودگی کے مسئلہ ہی سے متعلق مانتے ہیں اور وہیں اس کو ذکر کرتے ہیں اس کو امام کی موجودگی والے مسئلہ سے جوڑنا سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے۔ سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ۔ سے صفوں کی درستگی کی سنیت معلوم ہوتی ہے جب ’’حي علی الصلاۃ‘‘ و’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوکر لا إلہ إلا اللہ کے فوراً بعد نماز شروع کر دی جائے گی تو صراحۃً اس حدیث کی تعطیل لازم آئے گی۔ تسویۃ صفوف کا یہ مطلب کسی فقیہ نے نہیں بیان کیا ہےکہ لوگ آکر صف بستہ بیٹھ جائیں اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑے ہوں بلکہ حدیث میں بھی ’’فقمنا فعدلنا الصفوف‘‘ جیسے الفاظ ملتے ہیں جن سے وضاحت ہوتی ہے کہ صفوں کی درستگی کھڑے ہی ہو کر ہوتی ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں : ’’فقمنا فعدلنا الصفوف‘‘ إشارۃ إلی أن ہذہ سنۃ معہودۃ۔ (نووی شرح مسلم، ج:۱،ص:۲۲۰) (ح) ابتداے اقامت ہی میں کھڑے ہو جانا مستحب ومسنون اور ثابت بالسنۃ ہے اور ‘’حي علی الصلاۃ‘‘ و’’حي علی الفلاح‘‘ سے قبل تک بیٹھیں اور اس وقت کھڑے ہو جائیں ، یہ صرف جواز کی صورت ہے ‘’حي علی الصلاۃ‘‘ سے قبل ابتداے اقامت ہی میں کھڑا ہوجانے والا شخص نہ فرض کا تارک ہے اور نہ سنت ومستحب کا بلکہ وہ عامل بالسنۃ ہے چوں کہ جوابات صرف حدیث شریف کے حوالے سے طلب کیے گئے ہیں اس لیے حوالے میں صرف احادیث پیش کی گئی ہیں اور شراح کی عبارتیں ورنہ فقہا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ المجیب بدر احمد مجیبی، خانقاہ مجبیہ پھلواری شریف

فتاویٰ #1525

------شارح بخاری قدس سرہ کا جواب----- الجواب ــــــــــــــــــــــــــ: ان مجیبی صاحب پر حیرت ہے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں اور غیر مقلدوں کی طرح احادیث کو توڑ مروڑ کر فقہاے احناف کی تصریحات کے خلاف ڈھالتے ہیں۔ اس مسئلے کی تین صورتوں میں اول امام مسجد میں نہ ہو اور اقامت کہی جائے تو سب مقتدی بیٹھے رہیں جب امام کو دیکھ لیں کہ وہ مسجد میں داخل ہو گیا تو کھڑے ہوں جائیں اگر چہ ابھی اقامت شروع ہی ہوئی ہو یا فرض کیجیے ختم ہو گئی ہو، اسی پر وہ ساری حدیثیں دلالت کر رہی ہیں جو مجیبی صاحب نے نقل کی ہیں ۔ ان سب کا محمل یہی ہے اور یہی ہمارے فقہاے احناف نے فرمایا جیسا کہ ابھی عبارتیں آرہی ہیں۔ ثانی امام اور قوم سب مسجد میں ہوں تو امام اور قوم کو ابتداے اقامت میں بیٹھے رہنا چاہیے جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہنا شروع کرے تو لوگ کھڑے ہونا شروع کریں اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ فقہ حنفی کی تمام کتب میں اس کی تصریح ہے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ امام مسجد کے باہر ہو اور مصلیوں کے پیچھے سے آئے تو جس صف تک امام پہنچے اس صف والے کھڑے ہو جائیں۔ تنویر الابصار در مختار میں ہے: والقیام لإمام ومؤتم حین قیل حي علی الفلاح إن کان الإمام بقرب المحراب وإلا فیقوم کل صف ینتہی إلیہ الإمام علی الأظہر وإن دخل من قدام حین یقع بصرہم علیہ إلا إذا أقام الإمام بنفسہ في مسجد فلا یقفوا حتی یتم إقامتہ ، ظہیریۃ۔ اس کے تحت شامی میں ہے: قولہ حین قیل حي علی الفلاح، کذا في الکنز ونور الإیضاح والإصلاح والظہیریۃ، والبدائع وغیرہا والذي في الدرر متنا وشرحا عند الحیعلۃ الأولی یعنی حین یقال ’’حي علی الصلاۃ‘‘ اھ۔ وعزاہ الشیخ إسماعیل في شرحہ إلی عیون المذاہب والفیض والوقایۃ والنہایۃ والحاوي والمختار اھ ۔ قلت واعتمدہ في متن الملتقی وحکی الأول بـ قیل لکن نقل ابن الکمال تصحیح الأول ونص عبارتہ: قال في الذخیرۃ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ۔ ان سب عبارتوں کا حاصل یہ ہوا کہ اگر امام مسجد کے اندر محراب کے قریب ہو تو امام اور مقتدی دونوں ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں یہی کنز، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ، بدائع ، ذخیرہ وغیرہ میں ہے۔ درر ، غرر، میں ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پرکھڑا ہو۔ مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اس میں یہ تطبیق دی کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا شروع کرے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھا کھڑا ہو جائے یہ کل چار صورتیں ہوئیں۔ • اقامت کہنے والا امام کے علاوہ کوئی اور ہو اور امام مسجد کے باہر ہو ، امام مسجد میں اگلی صف سے آئے اس صورت کا حکم یہ ہے کہ مقتدیوں کی نظر جب امام پر پڑے سب کے سب کھڑے ہو جائیں خواہ تکبیر کے ابتدائی کلمات کہے جا رہے ہوں یا اخیر کے حتی کہ اگر تکبیر ختم ہو جائے اور امام مسجد میں نہ آئے تو بھی مقتدی بیٹھے رہیں۔ یہی حکم احادیث میں تصریح کے ساتھ موجود ہے۔ مجیبی صاحب نے جتنی احادیث نقل کی ہیں وہ سب اسی صورت کے ساتھ خاص ہیں۔ ہمارے دیار میں اس پر عمل نہیں بلکہ عمل یہ ہے کہ جب تک امام مصلے پر پہنچ نہیں جاتا اقامت شروع نہیں کی جاتی۔ مذکورہ بالا احادیث کا اس صورت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ • صورت مذکورہ میں امام مصلیوں کے پیچھے سے آئے اس صورت کا حکم یہ ہے کہ امام جس صف تک پہنچے وہ صف کھڑی ہو جائے ورنہ لوگ بیٹھے رہیں اگر چہ اقامت ختم ہو جائے۔ • امام اور مقتدی سب مسجد میں ہوں اور امام محراب کے قریب ہو جیسا کہ ہمارے دیار میں عام دستور ہے اس صورت میں حکم یہ ہے کہ امام اور مقتدی تکبیر بیٹھ کر سنیں اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں۔ مجیبی صاحب نے جو حدیثیں نقل کی ہیں ان کا تعلق اس صورت سے نہیں ، کوئی صاحب کوئی ایسی حدیث نہیں دکھا سکتے اور نہ کسی فقیہ کا قول دکھا سکتے ہیں کہ اس صورت میں امام اور مقتدی شروع تکبیر سے کھڑے رہیں۔ فقہا نے تو یہ فرمایا : یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ حي علی الفلاح۔ کھڑے ہو کر اقامت کے ختم ہونے کا انتظار کرنا مکروہ ہے بیٹھ جائے اور جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ پر پہنچے کھڑا ہو جائے۔ • امام خود تکبیر کہے تو سب مقتدی بیٹھے رہیں تکبیر ختم ہو جائے تو سب مقتدی کھڑے ہو جائیں۔ رہ گیا یہ کہنا کہ صف درست نہ ہو پائے گی انتہائی لچر بات ہے صف درست کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ علاوہ ازیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر صفیں ٹیڑھی ہوں تو اقامت کے بعد صفیں درست کی جائیں۔ حضرت امام اعظم کے تلمیذ جلیل امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مؤطا میں فرماتے ہیں: ینبغی للقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح أن یقوموا إلی الصلاۃ فیصفوا و یسووا الصفوف ویحاذوا بین المناکب۔ قوم کو چاہیے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو نماز کے لیے کھڑے ہوں، صف باندھیں، صفوں کو سیدھی کریں۔ مونڈھوں کو برابر کریں۔ حدیث میں ہے: أقیمت الصلاۃ فأقبل علینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- بوجہہ فقال أقیموا صفوفکم وتراصوا۔ اقامت کہی گئی اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے اپنا رخ انور ہماری طرف کیا اور ارشاد فرمایا : صفوں کو سیدھی کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو ۔ اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ اقامت کے بعد بھی صفیں درست کی جا سکتی ہیں اگر پہلے سے درست نہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ جب امام اور مقتدی دونوں مسجد میں ہوں اور امام محراب کے قریب ہو اور تکبیر کہنے والا امام کے علاوہ کوئی اور ہو تو امام اور مقتدی دونوں کو بیٹھے رہنا چاہیے جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت کھڑے ہوں ۔ یہی تمام فقہ حنفی میں تصریح کے ساتھ مذکور ہے۔ ابتداے اقامت سے کھڑے رہنا مکروہ ہے اس کے خلاف نہ کوئی حدیث ہے نہ فقہ کا کوئی جزیہ ۔ اور مجیبی صاحب نے جو حدیثیں نقل کی ہیں وہ اس صورت کے لیے نہیں بلکہ پہلی صورت کے لیے ہیں جب کہ امام مسجد کے باہر ہو اور اقامت کہی جائے۔ خلط مبحث کر کے عوام کو خلجان میں ڈالنا مفتی کی شان کے لائق نہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اقامت کے وقت اس صورت میں بیٹھے رہنا فرض یا واجب نہیں، نہ کسی نے اس کا دعوی کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ مستحبات پر عمل کرنا اور مکروہ سے بچنا کیا کوئی جرم ہے، کیا اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کہ اس مسئلہ کی تعلیم کرنے والوں پر لعن طعن وتشنیع کی جائے اور ایک مکروہ کے ارتکاب پر ضد کی جائے۔ کیا یہ دیانت ہے؟ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved