8 September, 2024


دارالاِفتاء


بعد سلام وآداب وقدم بوسی کے التماس خدمت اقدس میں ایں کہ ایک دیوبندی کا دیوبند کے یہاں سے منگوایا ہوا فتوی کا پرچہ حضور کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اس کا مفصل ومدلل منہ توڑ جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عنایت فرما کر سنیوں کی نگہ بانی فرمائیں، عین کرم ہوگا۔ ایک یہاں پکا شیطان رہتا ہے جو پہلے سے سبھوں کو شیطانیت میں ڈبورہا ہے اور آج بھی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر اللہ کا شکر ہے ،حبیب کا کرم ہے ، آپ بزرگوں کی دعا ہے کہ قریب دو سال سے اشرفیہ کا فارغ آپ کا خادم یہاں آیا جیسے سنیت کو جان میں جان آئی اور دیوبندیت مرجھائی۔ اب سنیت حاوی ہے مگر قوم جاہل ہے، شیطان اپنا کام کرتا رہتا ہے پھر بھی اللہ کے حبیب کے صدقے بہت کامیابی ہے ، زیادہ دعا چاہیے، تمامی حضرات کو سلام عرض ہو۔ اور ہجڑے کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ اس کا جواب مرحمت فرمائیں۔اور دیوبندی یا دیوبندی کے ماننے والے کے یہاں میلاد پاک پڑھنا کیسا ہے اور کچھ لوگ اپنے کو سنی کہتے ہیں اور ظاہر میں دیوبندیت کو اپنا رکھا ہے ان کے یہاں میلاد پاک پڑھنا اور جانا کیسا ہے؟ امام ومقتدی نماز کے لیے کس وقت کھڑے ہوں؟ جواب تحریر فرمائیں۔ فقط والسلام----------------- ایک استفتا اور اس کا جواب------------------ اقامت کے وقت مقتدیوں کو نماز کے لیے کس وقت کھڑا ہونا چاہیے؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب مکبر ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت امام اور مقتدیوں کو نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ جو لوگ اس کے خلاف شروع ہی سے کھڑے ہوتے ہیں ان کو یہ لوگ برا سمجھتے ہیں اور ان کو طرح طرح سے ملعون کرتے ہیں یہ کہاں تک درست ہے؟ المستفتی: قمر الدین انصاری ، کان پور---------------------------- ------ دیو بندی مفتی کا جواب، الجواب ـــــــــــــــــــــــــــــ: ’’حي علی الفلاح‘‘ پر ہی امام اور مقتدیوں کے کھڑے ہونے کو ضروری قرار دینا اور شروع اقامت پر کھڑے ہونے کو غلط اور ناجائز سمجھنا حدیث اور فقہ حنفی کی غلط ترجمانی ہے۔ حدیث وفقہ کی مستند کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کو کسی وقت بھی ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کے برخلاف شروع تکبیر پر کھڑے ہونے کو بہتر سمجھا گیا ہے۔ قرآن پا ک میں ارشاد باری ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ١ؕ ۔ نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔ ایک دوسری آیت میں ہے: اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ۔ جب جمعہ کی نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو ۔ ان آیات کا تقاضا ہے کہ اذان واقامت شروع ہوتے ہی نماز کی طرف بڑھنا اور اس کے لیے کھڑا ہونا چاہیے ۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کا معمول اس کے ہی مطابق تھا۔ مشہور تابعی، امام حدیث، ابن شہاب زہری فرماتے ہیں: إن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ (بذل المجہود شرح أبي داؤد،ج اول،ص:۲۶۰۔ ) جیسے مؤذن اللہ اکبر کہتا تمام صحابۂ کرام نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ: جب اقامت شروع ہوتی تھی تو ہم لوگ کھڑے ہوجاتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے حجرے سے نکلنے سے پہلے صفوں کی درستگی کر لیتے تھے۔ (مسلم شریف،ج:اول،ص:۲۲۰) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شروع تکبیر پر کھڑا ہونا ناجائز اور غلط ہے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر ہی امام ومقتدیوں کو نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہیے وہ عہد نبوی اور اس کے بعد بھی صحابۂ کرام کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں سوچیں کہ ان کا یہ طریقہ فکر وعمل کہاں تک درست ہے؟ شروع تکبیر ہی پر کھڑے ہونے کا حکم فقہ حنفی کی مستند ومعتبر کتب فتاوی سے بھی ملتا ہے۔ چناں چہ فقہ حنفی کی مشہور ومستند متداول کتاب در مختار اور شامی جلد اول کے ص:۳۲۲ پر عبارت موجود ہے ۔ اگر امام سامنے سے مسجد میں داخل ہو تو امام پر نظر پڑتے ہی سارے مقتدیوں کو کھڑے ہوجانا چاہیے، اور اگر امام مقتدیوں کی پشت کی جانب سے مصلے کی طرف بڑھے تو جس جس صف سے امام گزرتا جائے وہ صف کھڑی ہوتی جائے۔ حتی کہ امام کے مصلے پر پہنچنے پر تمام صفیں کھڑی ہو چکی ہوں۔ان صورتوں میں کہیں بھی ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شروع ہی سے کھڑے ہونے میں ایک دوسرے انتہائی اہم حکم شرعی کی رعایت پورے طور پر ہو سکتی ہے اور وہ ہے صفوں کو سیدھا اور درست رکھنا ۔ حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کو اس کا بڑا اہتمام تھا اور احادیث سے اس کی بڑی تاکید اور ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے ، حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: اپنی صفوں کوسیدھا کرو اس لیے کہ صفوں کی درستگی تکمیل نماز کا جزو ہے۔( مسلم شریف ج اول،ص:۳۸۳) ایک حدیث پاک میں اس کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، ارشاد نبوی ہے: صفوں کو ضرور سیدھا اور درست رکھو ورنہ تمھارے دلوں کے درمیان ٹیڑھا پن او رکجی یعنی مخالفت پیدا ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس افضلیت کا حاصل کرنا اور اس کے ترک پر جو وعید ہے اس سے بچنا پورے طور پر اسی وقت ممکن ہے جب کہ شروع تکبیر سے ہی کھڑے ہونے کا اہتمام کیا جائے۔ اس لیے کہ اگر ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا اہتمام رکھا جائے گا تو اگر اقامت کے ختم ہوتے ہی یا مستحب سمجھتے ہوئے ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر نیت باندھ لے گا تو اس کا موقع ہی نہ رہ جائے گا اور اگر اس کے بعد اہتمام کیا جائے گا تو لامحالہ اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان فصل لازم آئے گا جو خلاف اولی ہے۔ اور ایسی صورت میں ایک فضیلت کے پیچھے دوسری فضیلت کا ترک لازم آئے گا۔ جو حضرات شروع تکبیر سے کھڑے ہونے کو غلط سمجھتے ہیں وہ اپنے طریقہ فکر وعمل کے سلسلے میں در مختار کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں: والقیام للإمام ومؤتم حین قیل: ’’حي علی الفلاح‘‘ إن کان الإمام بقرب المحراب۔ (ج:۱،ص:۳۲۲) اگر امام محراب کے پاس ہو تو ’’حي علی الفلاح‘‘ کہنے کے وقت امام اور مقتدیوں کو کھڑا ہونا چاہیے۔ اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے طحطاوی شرح در مختار میں فرماتے ہیں:یہ حکم اس لیے فرمایا گیا کہ نیکی کے حکم پر عمل کرنے میں جلدی کی جائے اور ظاہر مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کے بعد تاخیر سے بچا جائے نہ یہ کہ اس سے پہلے نہ کھڑا ہوا جائے بلکہ اگر ابتداے اقامت ہی میں کھڑا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (طحطاوی علی الدر مختار ،جلد اول، ص:۲۱۵ ) علامہ طحطاوی کی اس تشریح کو سامنے رکھ کر ہی کہا جائے گا کہ انھوں نے مراقی الفلاح کے حاشیہ میں ابتداے اقامت میں کھڑے ہونے کے متعلق جو بحوالہ مضمرات ایک قول کراہت کا نقل کیا ہے وہ معتبر نہیں ہے اس لیے کہ دوسرے مواقع پر خود طحطاوی نے اس کے خلاف لکھا ہے، مزید یہ کہ کسی اور کتاب سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ کراہت کے سلسلے میں حضور کا یہ ارشاد پیش کرنا : لا تقوموا حتی ترونی۔ جب تک مجھے دیکھ نہ لو مت کھڑے ہو ۔انتہائی بے جا اور غلط استدلال ہے بلکہ بے محل ہے ۔ آپ کے ارشاد مبارک کا اس حکم فقہی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس ارشاد مبارک کا محل تو وہ ہے کہ ایک مرتبہ اقامت پر صحابۂ کرام نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ کا ایک معمول مبارک یہ تھا کہ کبھی کبھی اقامت ہونے پر اپنے حجرۂ مبارکہ سے تشریف لاتے ۔ اس دن اتفاق سے کسی وجہ سے آپ کو دیر ہو گئی اور اقامت ختم ہو گئی ۔ اس پر صحابہ میں تھوڑی سی الجھن پیدا ہو گئی پھر آپ تشریف لائے تو صحابۂ کرام کی بے چینی اور انتظار دیکھ کر آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے دیکھ کر ہی نماز کے لیے کھڑا ہوا کرو کہ کبھی کسی ضرورت سے آنے میں دیر ہو جاتی ہے تو اس میں ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا کہاں تذکرہ ہے؟ اگر مذکورہ بالا در مختار کی عبارت کا ظاہری مفہوم لیا جائے تب بھی اس عبارت کی رو سے جو در مختار کے علاوہ اور بھی متون فقہ میں ہے اس کو ضروری نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ فقہا نے اور خود صاحب در مختار نے آداب کا عنوان قائم کرکے یہ اور دیگر احکام مثلا قد قامت الصلاۃ پر بھی نماز شروع کر دینا وغیرہ ذکر کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پر نماز کے لیے کھڑا ہونا مستحب ہے وہ بھی صاحب در مختار نے مقید کیا ہے اس بات کے ساتھ کے اگر امام سامنے سے آئے تو سب دیکھتے ہی کھڑے ہو جائیں اور اگر پشت سے آئے تو صف بہ صف لوگ کھڑے ہوتے جائیں۔ اس قول کی شرح میں لکھا ہے یعنی اس وقت جب کہ امام محراب کے پاس نہ ہو بلکہ مسجد کے کسی اور حصے میں ہو یا مسجد کے باہر ہو اور عین اقامت کے وقت مسجد میں آئے۔ شامی جلد اول،ص:۳۲۲۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم صرف ایک صورت میں ہے جب کہ امام محراب کے پاس ہی بیٹھا ہو تو ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سب کا کھڑا ہونا مستحب ہے ۔ حضرات فقہا نے اگر کہیں محض اس صورت کو لکھ دیا ہے تو وہ عام حالت کی رعایت کرتے ہوئے اکثر امام مسجد میں محراب کے پاس موجود ہوتے ہیں اور سب نے اسے مستحب ہی بتایا ہے اور مستحب کا حکم یہ ہے کہ اس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر نہ کوئی سزا نہ ملامت ۔ (شامی،جلد اول،ص:۲۴، ص:۳۲۲،ص۳۳۹) اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایسا کیا جائے تو یہ بھی ایک کار ثواب ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی ابتداے اقامت میں ہی کھڑا ہو جایا جائے تو یہ بھی جائز ودرست ہے نہ اس پر کوئی گناہ اور نہ طعن وتشنیع وغیرہ جائز ہے۔ جب کہ یہاں ایک مستحب کی رعایت سے ایک دوسرے اہم حکم شرعی پر عمل کرنے میں خلل پڑ تا ہے یعنی صفوں کی درستگی جیسا کہ تفصیل سے عرض کیا جا چکا تو صفوں کی درستگی کا لحاظ کرنا زیادہ مہتم بالشان ہوگا اور شروع سے کھڑا ہونا افضل ہوگا جیسے ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر نماز شروع کردینا مستحب ہے۔ تمام کتب فقہ میں اوپر والے مسئلہ کے ذکر کے بعد اسی مسئلہ کا ذکر ہے لیکن فقہا نے اولی اور اصح یہ قرار دیا ہے کہ اقامت ختم ہونے پر نماز شروع کی جائے تاکہ مکبر کو امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ مل جائے۔ (درمختار وشامی،ج:۱،ص:۳۲۶) اور اس حکم پر عمل میں اصرار اس عمل کو کار ثواب تو در کنار عذاب بنا دیتا ہے؛ اس لیے کہ فقہا کا مشہور ومسلمہ قاعدہ ہے کہ مستحب کو اگر اس کے درجہ سے بڑھا دیا جائے یعنی اس کا حکم یہ ہے کہ کرو تو ثواب نہ کرو تو کوئی حرج نہیں اور معاملہ یہ کر دیا جائے کہ اس کے نہ کرنے پر ملامت کی جانے لگے اور اس کا کرنا ضروری سمجھا جانے لگے تو مستحب مکروہ تحریمی بن جاتا ہے۔ اور پھر اس کا ترک کر دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ مجمع البحار،جلد دوم، ص:۲۴۲ اور عالمگیری وغیرہ میں بھی ایسا ہی مذکور ہے ۔ اس وقت جن لوگوں کا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا عمل ہے ان کا اس مسئلہ میں جو حال ہے وہ ظاہر ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو ترک کر دیا جائے ۔ ان گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جو عمل ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور جو فقہا کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے اسی کو اختیار کیا جائے اور اس سلسلہ میں کمی زیادتی، زور زبردستی سے کام لے کر کسی ایک صورت پر اصرار نہ کیا جائے جب کہ وہ بوجوہ آج کل کے حالات میں مکروہ تحریمی یعنی حرام کے قریب ہے۔إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقی إلا باللہ فقط واللہ تعالی اعلم۔ منظور احمد مفتی مدرسہ جامع العلوم، کان پور، ۱۴؍ محرم الحرام، ۱۳۹۶ھ الجواب صحیح محمد نصیر الدین صدر مدرس مدرسہ جامع العلوم، کان پور الجواب صحیح انوار احمد جامعی مدرسہ جامع العلوم ،کان پور الجواب صحیح محمد عبید اللہ الحافظ القاسمی الجواب صحیح۔ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے امام کا مصلے پر پابندی کے ساتھ آکر بیٹھنا بھی خلاف سنت ہے ۔ حضور پہلے سے آکر مصلے پر نہیں بیٹھا کرتے تھے جیسا کہ جواب میں مفصل بیان کیا گیا۔ اللہ تعالی اتباع سنت کی پوری توفیق عطا فرمائے، آمین

فتاویٰ #1516

--------- فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق صاحب قبلہ امجدی قدسرہ کا جواب- الجواب ـــــــــــــــــــــ: دیوبندی مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور ، کان پور کا ایک فتوی نظر سے گزرا جسے کسی دیوبندی ہی نے بصورت اشتہار چھپوایا ہے یہ فتوی اس سے متعلق ہے کہ اقامت کھڑے ہو کر سننا چاہیے یا بیٹھ کر۔ اس فتوے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقامت کھڑے ہو کر سننا چاہیے، بیٹھ کر سننا شرعاً ممنوع ہے۔ مجھے حیرت اس پر ہے کہ اس فتوے کے لکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں اور فقہ حنفی کی تمام کتابوں کی غیر مبہم واضح تصحیحات کے خلاف اپنے غیر مقلد بھائیوں سے سیکھ کر خود مجتہد بن کر براہ راست فقہ حنفی کو رد کرنے کے لیے بے موقع بے محل قرآن مجید کی آیات اور احادیث کا سہارا لیا گیا ہے۔ ہم ناظرین کے سامنے پہلے فقہ حنفی سے اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تین صورتیں ہیں : پہلی صورت: امام خود ہی اقامت کہے۔ اس صورت میں سب مقتدی بیٹھے رہیں جب تک امام پوری اقامت نہ کہہ لے نہ کھڑے ہوں۔ دوسری صورت: یہ ہے کہ امام محراب کے قریب نہ ہو مسجد ہی میں محراب سے کہیں دور ہو یا مسجد سے باہر ہو۔ اب اگر امام مصلے پر صفوں کے آگے کی طرف سے آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی کھڑے ہو جائیں اگرچہ اقامت ختم نہ ہوئی ہو۔ اور اگر صفوں کے پیچھے سے آئے تو جس صف سے گزرے وہ صف کھڑی ہو جائے۔ ہمارے دیار میں یہ صورتیں بہت نادر ہیں۔ اس لیے اس سے بحث کی ضرورت نہیں۔ تیسری صورت: یہ ہے کہ امام محراب کے قریب ہو اور سب مقتدی مسجد میں ہوں۔ ہمارے دیار میں اسی پر عمل ہے اور یہی متنازع ہے اسی سے ہم تفصیلی بحث کریں گے۔ سیدنا امام اعظم کے تلمیذ جلیل محرر مذہب امام محمد رضی اللہ تعالی عنہما اپنے مؤطا میں لکھتے ہیں : ’’ینبغي للقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح أن یقوموا إلی الصلاۃ ویسووا الصفوف۔ قوم کو چاہیے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو کھڑے ہوں اب صف لگائیں اور صفوں کو سیدھی کریں۔ عالمگیری میں ہے: إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح۔ مؤذن امام کے علاوہ کوئی اور ہو اور قوم امام کے ساتھ مسجد میں ہو تو امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: والقیام للإمام والمؤتم حین قیل حي علی الفلاح۔ اس کے تحت شامی میں ہے: كذا في الكنز ونور الإيضاح والإصلاح والظهيرية والبدائع وغيرها۔ والذي في الدرر متناً وشرحاً عند الحيعلة الأولى يعني حين يقال حي على الصلاة اهـ وعزاه الشيخ إسماعيل في شرحه إلى عيون المذاهب والفيض والوقاية والنقاية والحاوي والمختار ا هـ أ۔ قلت واعتمده في متن الملتقى وحكى الأول بـ قيل، لكن نقل ابن الكمال۔ تصحيح الأول۔ ونص عبارته: قال في الذخيرة يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة ۔ وقال الحسن بن زياد وزفر: إذا قال المؤذن قد قامت الصلاة قاموا إلى الصف۔ اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ تنویر الابصار، در مختار، کنز، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ، بدائع، ذخیرہ، میں یہ ہے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو لوگ کھڑے ہوں اور ملتقیٰ، درر، غرر، عیون المذاہب، فیض ، وقایہ، نقایہ، حاوی اور در مختار میں یہ ہے کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑے ہوں۔ ان دونوں میں مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے یہ تطبیق دی کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا شروع کریں اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ یہ سر دست بیس علما کے ارشادات ہیں ۔ ان سے ظاہر کہ امام اور مقتدی شروع اقامت سے کھڑے نہ رہیں بلکہ بیٹھے رہیں جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت کھڑے ہوں، یہ احناف کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ شروع اقامت سے کھڑے نہ ہوں بیٹھے رہیں اس میں کسی ایک امام یا عالم کا کوئی اختلاف نہیں، اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اقامت کے وقت بیٹھنا نہ کسی آیت کے معارض ہے اور نہ کسی حدیث کے، ورنہ لازم آئے گا کہ علماے احناف نے قرآن وحدیث کے خلاف پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس کی جرأت وہی کرے گا جو غیر مقلد ہو گا یا حنفیت کا دعوی کرتے ہوئے غیر مقلدین کا ایجنٹ ہوگا ۔ جامع العلوم کے مولوی صاحبان نے اس کے ثبوت میں جو دو آیتیں لکھی ہیں ان کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ پہلی آیت کا حاصل یہ ہے کہ ’’نیکیوں کے ادا کرنے میں جلدی کرو دیرنہ کرو‘‘۔ نیکیاں صرف نماز میں منحصر نہیں نیز ہر نیکی ادا کرنے کےلیے شرائط ہیں ان شرائط کو پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔ ان مولوی صاحب کے قول سے یہ لازم آتا ہے کہ اقامت شروع کرتے ہی نماز بھی شروع کر دی جائے ورنہ جب نماز سے پہلے اقامت ہے تو اقامت ختم ہونے تک نماز مؤخر کی جائے گی اس میں بیٹھنا کہاں حارج ہے ۔(حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ جب نماز اقامت کے بعد ہی شروع ہوگی تو اس سے پہلے بیٹھنے کی وجہ سے نماز شروع کرنے میں دیر ہر گز نہ ہوگی۔ مسنون یہ ہے کہ جب مکبر ’’حی علی الصلاۃ‘‘ کہے تو کھڑے ہونا شروع کردیں اور ’’حی علی الفلاح‘‘ کہنے تک پورے کھڑے ہو جائیں۔ تو اس سنت پر عمل سے شروع نماز میں کہاں حرج پیدا ہوا۔ کیا دیو بندی ’’حی علی الفلاح‘‘ سے پہلے ہی نماز شروع کر لیتے ہیں، نیکی میں جلدی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وقت سنت سے پہلے نماز شروع کر دی جائے اور اگر دیوبندی ’’حي علی الفلاح‘‘ کے بعد نماز شروع کرتے ہیں تو حنفیہ اس میں دیر کہاں کرتے ہیں، حنفیہ تو اسی کے قائل ہیں کہ’’حي علی الفلاح‘‘ کے بعد نماز شروع ہو اور اس سے پہلے وہ مکمل کھڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ محمد نظام الدین رضوی) اور دوسری آیت میں ’’ ذکر اللہ‘‘ سے مراد اگر مولوی صاحب خطبہ لیں تو بھی اسے ان کے مدعا سے کوئی لگاو نہیں اور اگر ’’ذکر اللہ‘‘ سے مراد جمعہ ہے تو لازم کہ اذان سنتے ہی مسجد میں جاکر نماز جمعہ شروع کر دیں ۔ خطبہ بھی نہ سنیں یا پھر لازم کہ خطبہ کھڑے ہو کر سنیں۔ اور مسلم شریف کے حوالے سے جو پہلی حدیث نقل کی ہے اس مولوی نے خیانت کی حد کر دی ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: أقیمت الصلاۃ فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم-۔ اقامت کہی جا چکی تو اس کے بعدہم کھڑے ہوئے اور ہم نے صفیں درست کیں قبل اس کے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائیں۔ یہ اس پر نص ہے کہ صحابۂ کرام اقامت بیٹھ کر سنتے اور جب اقامت پوری ہوجاتی تو کھڑے ہوتے اور صفیں درست کرتے ۔ ابتداءً ایسا ہی تھا کہ اقامت ختم ہوتے ہی صحابۂ کرام کھڑے ہو جاتے خواہ حضور اقدس ﷺ حجرۂ مبارکہ ہی میں ہوتے اس پر صحابۂ کرام کو مشقت تھی اس لیے بعد میں فرمایا: ’’لا تقوموا حتی تروني‘‘۔ جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرام بیٹھ کر اقامت سنا کرتے تھے حتی کہ اقامت ختم ہو جاتی جب بھی بیٹھے رہتے جب [حضور اقدس ﷺ] حجرۂ مبارک سے باہر تشریف لاتے اور صحابۂ کرام دیکھ لیتے تو کھڑے ہوتے مگر اس حدیث کو متنازع فیہ صورت سے علاقہ نہیں ـــــــ یہ مسئلہ کی دوسری صورت ہے جب امام مسجد سے باہر ہو اور اقامت کہی جائے ۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ امام اور قوم دونوں مسجد میں ہیں اور امام محراب کے قریب میں ہے ـــــــ پھر بھی ہمیں مضر نہیں کہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ’’حي علی الصلاۃ ، حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں اور حدیث سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ صحابۂ کرام پوری اقامت بیٹھ کر سنا کرتے تھے۔ ضد اور عناد کے جوش میں ان غریبوں کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ جو دلیل ذکر کر رہے ہیں اس سے ہمارا مدعا ثابت ہو رہا ہے یا رد ہو رہا ہے ۔ اس مولوی کی ڈھیٹائی دیکھیے کہ حدیث میں تھا : ’’أقیمت الصلاۃ فقمنا‘‘ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے : ’’اقامت کہی گئی اس کے بعد ہم کھڑے ہوئے‘‘۔ اور اس مولوی نے یہ ترجمہ کیا : ’’جب اقامت شروع ہوتی تھی تو لوگ کھڑے ہو جاتے تھے‘‘۔ بے پڑھے لکھے عوام کو گمراہ کرنے کے فن میں دیوبندی جماعت پوری دنیا میں زیادہ ماہر ہے، اس نے حدیث کا ترجمہ غلط کیا اور اس کے بڑوں نے تو حدیث بھی گڑھ لی ۔اس سے بڑی ڈھیٹائی یہ ہے کہ در مختار وغیرہ کی جو عبارت نقل کی یہ اس صورت کے ساتھ خاص تھی جب امام محراب کے قریب نہ ہو۔ وہیں ابتدا میں ہے : والقیام حین قیل ’’حي علی الفلاح‘‘ إن کان الإمام بقرب المحراب، وإلا فیقوم کل صف ینتہي إلی الإمام۔ وإن دخل من قدام قاموا حین یقع بصرہم علیہ۔ شامی میں ہے: أي وإن لم یکن الإمام بقرب المحراب بأن کان في موضع آخر من المسجدأو خارجہ ودخل من خلف۔ اور جب ’’حي علی الفلا ح‘‘ کہا جائے تو کھڑے ہوں اگر امام محراب کے قریب ہو۔ اور اگر امام محراب کے قریب نہیں مسجد ہی میں کہیں اور ہے یا مسجد کے باہر ہے اور صف کے پیچھے سے آئے تو جس صف تک پہنچے وہ صف کھڑی ہو جائے اور اگر آگے سے آئے تو امام کو دیکھتے ہی سب لوگ کھڑے ہو جائیں۔ کیا بد دیانتی و گمراہ گری کی اس سے بدتر مثال کوئی مل سکتی ہے کہ حکم کسی اور صورت کا تھا اور اسے چسپاں کیا جائے کسی دوسری صورت پر ،خصوصاً جب کہ متنازع صورت کا حکم وہیں مستقلاً مذکور ہو۔ پھر دلیری یہ ہے کہ در مختار کی یہ عبارت جو متنازع صورت کا جزئیہ ہے اپنی تحریر کی ابتدا میں خود نقل کی ہے اور چند سطر کے بعد ہی بھول گیا۔ سچ فرمایا حضور اقدس ﷺ نے: لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے جو بغیر علم فتوی دیں گے ، خود بھی گمراہ ہوں گے ، دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (حاشیہ: عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول اللہ -ﷺ- یقول: إن اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم یقبض العلماء حتی إذا لم یبق علما۔ اتخذ الناس رؤسا جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا ۔ [الصحیح البخاری، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم۔ رقم الحدیث: ۹۹۔ محمود علی المشاہدی]) اور اخیر میں تو اس مولوی نے اپنی جہالت کے ساتھ ساتھ سفاہت پر رجسٹری کردی کہ ابتداے اقامت میں بیٹھنے کو صفیں سیدھی کرنے کے معارض جانا، اس عقلِ کل سے کوئی پوچھے کہ صف سیدھی کرنے میں کَے گھنٹے وقت صرف ہوگا؟ جو مسلمان نماز کے عادی ہیں وہ چند سکینڈ میں صفیں درست کر لیں گے اور اگر بالفرض اقامت ختم ہوتے ہوتے صفیں سیدھی نہ ہوں تو اقامت کے بعد صفیں سیدھی کرنے پر کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ احادیث میں تصریح ہے کہ اگر اقامت کے بعد بھی صفیں سیدھی نہ ہوتیں تو حضور اقدس ﷺ صفوں کو سیدھی فرماتے پھر نماز شروع فرماتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جب امام محراب کے قریب ہو جیسا کہ ہمارے دیار میں دستور ہے تو امام ومقتدی دونوں بیٹھ کر اقامت سنیں۔ اس پر علماے احناف کا اتفاق ہے ۔ اختلاف ہے تو اس میں کہ کس وقت کھڑا ہو ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت ، یا ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ کے وقت ۔ صحیح یہ ہے کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا شروع کرے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھا کھڑا ہو جائے، شروع اقامت سے ہرگز نہ کھڑا رہے۔ مضمرات، عالمگیری، شامی میں تصریح ہے کہ اگر اقامت کے وقت کوئی آئے اس پر لازم ہے کہ بیٹھ جائے اسے کھڑا رہنا مکروہ ہے، لکھتے ہیں: یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ ’’حي علی الفلاح‘‘ کذا في المضمرات۔ اسی سے مفتی دیوبند کی اس نکتہ آفرینی کا قلعہ قمع ہو گیا جو انھوں نے لکھا۔ اور فقہ کی کتابوں میں جو بات یہ آئی ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا مستحب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد تک بیٹھے رہنا مکروہ ہے کیوں کہ مذکورہ بالا عبارت میں صاف تصریح ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ سے پہلے کھڑا رہنا مکروہ ہے اور بیٹھنا ضروری۔ اسے تسویۂ صف کے منافی جاننا فقہاے احناف پر یہ طعن کرنا ہوا کہ انھوں نے ایک ایسے فعل کو مستحب کہا جو ایک سنت کے مزاحم ہے۔ یہ غیر مقلدانہ روش ہے ،صف سیدھی کرنے میں کتنے سکنڈ لگتے ہیں۔ جو لوگ نماز اور صف سیدھی کرنے کے عادی ہیں وہ سکنڈ میں صف سیدھی کر لیں گے۔ اور اگر بالفرض اقامت ختم ہونے کے بعد بھی صف سیدھی نہ ہوئی تو اقامت ختم کرنے کے بعد صف سیدھی کرنے میں کیا حرج ہے۔ حدیث میں ہے: أقيمت الصلاة ، فأقبل علينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بوجهه، فقال : أقيموا صفوفكم وتراصوا، فإني أراكم من وراء ظهري رواه البخاري. وفي المتفق عليه قال: أتموا الصفوف ، فإني أراكم من وراء ظھري. اقامت کہی جا چکی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ انور ہماری طرف کیا اور فرمایا صفیں درست کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو۔ میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved