بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (۱-۲) یہ صحیح ہے کہ حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک پور تشریف لانے کے بعد برسہا برس تک اذان خطبہ اندر ہی ہوتی تھی امامت بھی حضور حافظ ملت نہیں فرماتے تھے۔امام یہیں کے مقامی ایک عالم تھے، ابتدا میں حضرت حافظ ملت رضی اللہ تعالی عنہ کا اتنا اثر ورسوخ نہیں تھا کہ ان کے فرمانے سے لوگ اذان خطبہ باہر کرنے لگتے۔ حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدا ے عہد میں بھی منتظمین سے اذان خطبہ باہر کرنے کو فرمایا لیکن لوگ راضی نہ ہوئے پھر کیسے اور کب سے اذان خطبہ باہر ہونے لگی تفصیل مجھے معلوم نہیں مگر میں حافظ ملت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے زمانے میں بھی ایک آدھ بار حاضر ہوا تو دیکھا کہ اذان خطبہ باہر ہو رہی ہے پھر اس سے کوئی فائدہ نہیں کہ کب شروع ہوئی، کیسے شروع ہوئی، کہاں اندر ہوتی ہے ، کہاں باہر ہوتی ہے، یہ حکم شرعی کا مدار نہیں ، حکم شرعی کا مدار کتاب وسنت کے ارشادات اور فقہاے کرام کے فرمودات ہیں جب حدیث اور فقہاے کرام کے ارشادات سے یہ بات ثابت ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینا مطلقا منع ہے اور عہد رسالت وعہد خلفاے راشدین میں یہ اذان بیرون مسجد ہوتی تھی تو مسلمانوں پر واجب کہ اسی پر عمل کریں۔ سوال میں امام صاحب کا یہ جملہ لکھ کر آیا تھا کہ ’’وہاں بھی تو اذان اندرون مسجد ہوتی ہے‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب بھی اندر ہی ہوتی ہے ۔ اس کو میں نے لکھا تھا کہ ’’یہ جھوٹ ہے‘‘ لیکن اب امام صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’میرے زمانے میں اندر ہوتی تھی اس سے میں نے سمجھا کہ اب بھی اندر ہی ہوتی ہوگی‘‘۔ ان کا یہ عذر قابل قبول ہے اس عذر کے بعد ان پر حکم فسق نہیں رہے گا کہ یہ جھوٹ نہیں غلط فہمی ہے۔ رہ گیا امام کا اور ان کی رضا سے طلبہ کا مسجد میں اٹھنا ،بیٹھنا ،سونا، پان کھانا وغیرہ وغیرہ اس بارے میں حکم شریعت یہ ہے کہ :مسجد میں مسافر اور معتکف کے علاوہ کسی کو رہنا اور سونا جائز نہیں، امام صاحب اور طلبہ وہاں مسافر تو نہیں لیکن مسلمان وہ بھی عالم کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے۔ اس لیے میرا گمان یہی ہے کہ یہ لوگ بہ نیت اعتکاف مسجد میں رہتے ہوں گے جو بھی مسجد میں جائے جس وقت بھی جائے اعتکاف کی نیت کرلے جیسا کہ بہار شریعت تک میں یہ مسئلہ مصرح لکھا ہوا ہے ۔ مسجد میں بلند آواز سے قہقہہ لگانا، یا بلا ضرورت شرعیہ آواز بلند کرنا ضرور منع ہے امام کو بھی ضد نہیں کرنی چاہیے جب سونے کے لیے بر آمدہ موجود ہے تو اسی میں سوئیں ، اٹھیں بیٹھیں۔ ایسے کام سے بچنا ضروری ہے جس سے عوام میں غلط فہمی پیدا ہو نے کا اندیشہ ہو۔ گھڑی کے ساتھ اسٹیل کی چین باندھنے کے بارے میں علما کا اختلاف ہے، بہت سے علما ے اہل سنت اس کو ناجائز کہتے ہیں اور بہت حضرات جائز۔ اس خادم کی بھی یہی راے ہے کہ جائز ہے، یہی اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ اور علامہ شامی کے کلام سے ظاہر ہے ۔ ایسی صورت میں اولاً اگر نماز میں بھی چین باندھے رہیں تو نماز میں کوئی کراہت نہ ہوگی اور جب کہ امام صاحب نماز کے وقت اسے کھول لیتے ہیں تو بالاتفاق نماز بلا کراہت درست ۔ جن صورتوں میں نماز کے اعادہ کا حکم ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز کے وقت کے اندر اندر اعادہ کیا جائے وقت گزرنے کے بعد اعادہ ساقط۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org