8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) کیا فرماتے ہیں مفتیان دین متین وعلماے کرام امام صاحب کے اس قول پر جو مندرجہ ذیل فتوے کو سن کر ادا کیا۔ فروری ۱۹۷۹ء ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور، فتوی حضرت مولانا مفتی محمد شریف الحق صاحب کا خطبہ سے متعلق ’’جمعہ کی اذان خطبہ خارج مسجد کی جائے اور اندرون مسجد اذان دلوانی یا دینی خلاف سنت ہے‘‘۔ یہ فتوی چند لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ امام صاحب سے کہا کہیے جہاں سے آپ فارغ ہیں یہ وہیں کا فتوی ہے، کہیے کیا کہتے ہیں، کچھ دیر بعد انتہائی نحیف آواز سے بولے’’وہاں بھی تو اندرون مسجد اذان ہوتی ہے، ویسے مفتی صاحب متشدد ہیں‘‘۔ میں نے کہا تعجب ہے، اہل سنت کے مسلک کا ٹھوس ترجمان، انتہائی ذمہ دار ماہنامہ اشرفیہ میں ہمارا ایک مفتی ایسی غلط بات لکھ دے جو عربک یونیورسٹی میں نہ ہو ، انتہائی تعجب خیز بات لگتی ہے۔ امام صاحب ! میں دریافت کروں۔ کافی کہنے پر دبی زبان سے کہا پوچھ لیں۔ وہ سوچے کون پوچھا پوچھی کرے گا ، بات آئی گئی ہو جائے گی لیکن میں نے آپ تک سوال بھیجا اور یہ فتوی آیا جسے براؤں شریف اور بریلی شریف بھی تصدیق کے لیے بھیجا، سبھوں نے آپ کے دیے فتوی کی تصدیق کی، مفتی صاحب کا فتوی صحیح ہے اسی پر عمل کیا جائے۔کہیے تو اس کی فوٹو کاپی بھیج دوں تاکہ شک نہ رہے، آپ کے بھیجے ہوئے فتوے کو جب ہم نے امام صاحب سے تخلیہ میں کہا ۔ صرف اتنا کہ آپ کا کہنا تھا اذان اندر ہوتی ہے اور جواب یہ آیا: ’’مبارک پور کی جامع مسجد میں بحمدہ تعالی حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی حیات مبارکہ ہی سے اذان خطبہ مسجد کے باہر ہوتی ہے۔‘‘ سنا تو یہ کہتے ہوئے دوسری اور کروٹ بدل لیا کہ ’’میرے وقت میں نہیں ہوتی تھی اب ہو رہی ہو تو نہیں معلوم۔‘‘ امام صاحب کو وہاں سے فارغ ہوئے لگ بھگ ۱۸، ۱۹ برس ہوئے ہوں گے اس سے ایک دو برس زیادہ بھی یا کم۔ اب ہمیں خاموش ہونا پڑا، اس وقت تک کے لیے کہ اصل حقیقت پھر دریافت کر لوں کہ کب سے اذان ثانی باہر ہو رہی ہے ، مہربانی فرماکر سال نوٹ فرمائیں۔ اگر پھر امام صاحب کی بات جھوٹ ہو تو ان پر شریعت کیا شرعی فیصلہ نافذ کرتی ہے۔ آپ کا بھیجا ہوا فتوی مندرجہ ذیل ہے : ’’امام صریح جھوٹ بولا ہے ، مبارک پور کی جامع مسجد میں بحمدہ تعالی حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ ہی سے اذان خطبہ مسجد کے باہر ہوتی ہے‘‘۔ جس کا جی چاہے آکر دیکھ لے۔ امام پر فرض ہے کہ علانیہ توبہ کرے، اور اگر توبہ نہیں کرتا تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کو امامت سے علاحدہ کریں۔ وہ علانیہ صریح جھوٹ بولنے کی وجہ سے فاسق معلن ہو گیا۔ لوگوں کی یہ لیپا پوتی کہ امام صاحب نے رو میں کہہ دیا جانے دو، دین میں مداہنت ہے، یہ لوگ امام کی بے جا حمایت کرکے اور دین میں مداہنت کر کے خود گنہ گار ہوئے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ١ؕ ‘‘۔ واللہ تعالی اعلم (۲) کیا فرماتے ہیں مفتیان دین وعلماے ملت: ایک مسجد کے امام جو عالم دین (یعنی نائب رسول) ہیں ان کا عمل مسلمانوں کے لیے قابل نمونہ ہوتا ہے افسوس جب یہی مسائل شرعی کو کوئی خاص اہمیت نہ دیں، تو ظاہر بات ہے مقتدیوں اور شہر کے دوسرے مسلمانوں پر اس کا غلط اثر ہوگا۔ امام کی غلطیاں ملاحظہ ہوں: تخلیہ میں کئی بار امام صاحب سے ہم نے کہا مسجد عبادت کے لیے ہے نہ کہ سونے ، لیٹنے اور پیر پسار کر لیٹنے کے لیے ، قہقہہ لگانا مسجد میں۔ پان کھانا مسجد میں، دنیاوی گفتگو کرنی مسجد میں آپ نہ کریں۔فتوی مسجد میں آپ ہی کا لگایا ہوا ہے پھر بھی آپ ایسا کرتے ہیں، نہ ہی آپ مسجد میں یہ سارے اعمال کریں نہ کسی دوسرے کو کرنے دیں ، بلکہ جمعہ میں آداب مساجد کیا ہیں ظاہر کریں۔ کچھ دنوں تک تو یہ سلسلہ بند رہا بعد کو پھر شروع ہو گیا۔ میں نے کہا: آپ کے شاگردان مسجد میں سوتے ہیں جب کہ صحن مسجد اور کمرے میں جگہ ہے وہاں سونے کو کہیں۔ لیکن کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پہلے چمڑے کا بیلٹ لگاتے تھے اب چین کی گھڑی لگاتے ہیں جب کہا تو جواب ملا دوران نماز اتار دینی چاہیے بعد کو پہن لینے میں حرج نہیں جب کہ ایک عالم دین امام مسجد کو مطلق چین کی گھڑی نہیں پہننی چاہیے۔

فتاویٰ #1488

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (۱-۲) یہ صحیح ہے کہ حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک پور تشریف لانے کے بعد برسہا برس تک اذان خطبہ اندر ہی ہوتی تھی امامت بھی حضور حافظ ملت نہیں فرماتے تھے۔امام یہیں کے مقامی ایک عالم تھے، ابتدا میں حضرت حافظ ملت رضی اللہ تعالی عنہ کا اتنا اثر ورسوخ نہیں تھا کہ ان کے فرمانے سے لوگ اذان خطبہ باہر کرنے لگتے۔ حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدا ے عہد میں بھی منتظمین سے اذان خطبہ باہر کرنے کو فرمایا لیکن لوگ راضی نہ ہوئے پھر کیسے اور کب سے اذان خطبہ باہر ہونے لگی تفصیل مجھے معلوم نہیں مگر میں حافظ ملت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے زمانے میں بھی ایک آدھ بار حاضر ہوا تو دیکھا کہ اذان خطبہ باہر ہو رہی ہے پھر اس سے کوئی فائدہ نہیں کہ کب شروع ہوئی، کیسے شروع ہوئی، کہاں اندر ہوتی ہے ، کہاں باہر ہوتی ہے، یہ حکم شرعی کا مدار نہیں ، حکم شرعی کا مدار کتاب وسنت کے ارشادات اور فقہاے کرام کے فرمودات ہیں جب حدیث اور فقہاے کرام کے ارشادات سے یہ بات ثابت ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینا مطلقا منع ہے اور عہد رسالت وعہد خلفاے راشدین میں یہ اذان بیرون مسجد ہوتی تھی تو مسلمانوں پر واجب کہ اسی پر عمل کریں۔ سوال میں امام صاحب کا یہ جملہ لکھ کر آیا تھا کہ ’’وہاں بھی تو اذان اندرون مسجد ہوتی ہے‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب بھی اندر ہی ہوتی ہے ۔ اس کو میں نے لکھا تھا کہ ’’یہ جھوٹ ہے‘‘ لیکن اب امام صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’میرے زمانے میں اندر ہوتی تھی اس سے میں نے سمجھا کہ اب بھی اندر ہی ہوتی ہوگی‘‘۔ ان کا یہ عذر قابل قبول ہے اس عذر کے بعد ان پر حکم فسق نہیں رہے گا کہ یہ جھوٹ نہیں غلط فہمی ہے۔ رہ گیا امام کا اور ان کی رضا سے طلبہ کا مسجد میں اٹھنا ،بیٹھنا ،سونا، پان کھانا وغیرہ وغیرہ اس بارے میں حکم شریعت یہ ہے کہ :مسجد میں مسافر اور معتکف کے علاوہ کسی کو رہنا اور سونا جائز نہیں، امام صاحب اور طلبہ وہاں مسافر تو نہیں لیکن مسلمان وہ بھی عالم کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے۔ اس لیے میرا گمان یہی ہے کہ یہ لوگ بہ نیت اعتکاف مسجد میں رہتے ہوں گے جو بھی مسجد میں جائے جس وقت بھی جائے اعتکاف کی نیت کرلے جیسا کہ بہار شریعت تک میں یہ مسئلہ مصرح لکھا ہوا ہے ۔ مسجد میں بلند آواز سے قہقہہ لگانا، یا بلا ضرورت شرعیہ آواز بلند کرنا ضرور منع ہے امام کو بھی ضد نہیں کرنی چاہیے جب سونے کے لیے بر آمدہ موجود ہے تو اسی میں سوئیں ، اٹھیں بیٹھیں۔ ایسے کام سے بچنا ضروری ہے جس سے عوام میں غلط فہمی پیدا ہو نے کا اندیشہ ہو۔ گھڑی کے ساتھ اسٹیل کی چین باندھنے کے بارے میں علما کا اختلاف ہے، بہت سے علما ے اہل سنت اس کو ناجائز کہتے ہیں اور بہت حضرات جائز۔ اس خادم کی بھی یہی راے ہے کہ جائز ہے، یہی اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ اور علامہ شامی کے کلام سے ظاہر ہے ۔ ایسی صورت میں اولاً اگر نماز میں بھی چین باندھے رہیں تو نماز میں کوئی کراہت نہ ہوگی اور جب کہ امام صاحب نماز کے وقت اسے کھول لیتے ہیں تو بالاتفاق نماز بلا کراہت درست ۔ جن صورتوں میں نماز کے اعادہ کا حکم ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز کے وقت کے اندر اندر اعادہ کیا جائے وقت گزرنے کے بعد اعادہ ساقط۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved