8 September, 2024


دارالاِفتاء


مدینہ مسجد میں ایک مؤذن رکھا گیا ہے جو جماعت اسلامی سے یا جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھتا ہے اور سب متولیان جانتے ہیں کہ مؤذن ہمارے عقیدہ یعنی سنی نہیں ہے۔ مذکورہ مؤذن پانچوں وقت اذان واقامت پڑھتا ہے اور کبھی کبھی تمام اہل سنت کی امامت بھی کرتا ہے۔ کیا از روے شریعت اس کی اذان واقامت درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اذان واقامت سے جو نماز پڑھی گئی ہوئی یا نہیں؟ کیا اس کا دہرانا لازم ہے، جو نماز اس کے پیچھے پڑھی اس کا کیا حکم ہے، جو یہ جانتے ہوئے نماز ان کے پیچھے پڑھی کہ مؤذن صاحب جماعت اسلامی یا دیوبندی سے تعلق رکھتے ہیں کیا وہ ایمان سے خالی ہو گیا ؟ کیا اس کی بیوی نکاح سے نکل گئی ؟ کیا پھر سے اسلام لانا پڑے گا؟ متولیان مسجد سب جانتے ہیں کہ مؤذن سنی نہیں ہے ان سب پر شریعت کا کیا فتوی ہے؟

فتاویٰ #1451

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: کسی مودودی یا غیر مقلد کو مؤذن مقرر کرنا جائز نہیں ۔ مودودی اور غیر مقلد دونوں فرقے گستاخ رسول اور کافر ہیں ان کی اذان واقامت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی ہندو یا پارسی کو مؤذن مقرر کیا جائے ۔ اس کی اذان نہ اذان ہے نہ اس کی اقامت اقامت، ان کی اذان واقامت کے ساتھ نماز پڑھنا ایسا ہے جیسے بلا اذان واقامت نماز پڑھی گئی۔ٹرسٹیوں پر فرض ہے کہ فوراً مؤذن کو معزول کریں اور کسی سنی صحیح العقیدہ کو مؤذن مقرر کریں۔ پھر یہ بڑا بھاری ظلم ہے کہ یہ کبھی کبھی نماز بھی پڑھاتا ہے ۔ نہ اس کی نماز نماز ہے نہ اس کے پیچھے کسی کی نماز صحیح۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنی نہ پڑھنے کے برابر بلکہ اس سے بدتر۔ جو لوگ اس کو مسلمان جانیں اور مسلمان اعتقاد کر کے اس کی اقتدا کریں ضرور یہ لوگ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved