8 September, 2024


دارالاِفتاء


کپڑے سے یا کاغذ سے یا بوری سے پاخانہ کرنے کے بعد پاخانہ کی جگہ کو صاف کر سکتے ہیں یا نہیں جب کہ پانی موجود ہے اور مٹی بھی ریت کی شکل میں موجود ہے۔

فتاویٰ #1387

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: ایسا کپڑا جو کام کے لائق نہ ہو یوں ہی بوری کا ایسا ٹکڑا جو کام کا نہ رہا ان دونوں سے استنجا کر سکتے ہیں۔ کاغذ سے استنجا کرنا منع ہے یوں ہی ایسا کپڑا یا بوری کا ٹکڑا جو کام کے لائق ہو اس سے استنجا کرنا منع ہے بلکہ علامہ شامی نے رد المحتار میں فرمایا: ایسا کاغذ جو بالکل بے قیمت ہو اور اس پر کچھ لکھا ہوا نہ ہو تو اس سے استنجا کر سکتے ہیں، در مختار میں فرمایا: وکرہ تحریما بعظم وشيء محترم۔ ملخصا۔ اس کے تحت رد المحتار میں فرمایا: أي ما له احترام واعتبار شرعا فيدخل فيه كل متقوم إلا الماء كما قدمناه والظاهر أنه يصدق بما يساوي فلسا لكراهة إتلافه كما مر۔ پھر لکھتے ہیں: وكذا ورق الكتابۃ لصقالته وتقومه وله احترام أيضا لكونه آلۃ لكتابۃ العلم ولذا علله في التاترخانية بأن تعظيمه من أدب الدين۔ اس کے بعد ہے: وإذا كانت العلة في الأبيض كونه آلۃ الكتابۃ كما ذكرناه يؤخذ منها عدم الكراهة فيما لا يصلح لها(حاشیہ: ورق الکتابۃ اور اٰلۃ الکتابۃ کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ جو کاغذ کتابت کے لیے نہ ہو بلفظ دیگر آلہ کتابت نہ ہو جیسے ٹیسو پیپر وغیرہ ان سے استنجا مکروہ نہیں کہ یہ پیپر ناک صاف کرنے یا استنجا کے لیے ہی تیار کیے جاتے ہیں اور قطعا اس لائق نہیں ہوتے کہ ان کو کتابت کے لیے استعمال کیا جائے۔ رد المحتار کی عبارت: ’’ویوخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا‘‘ بھی اس پر شاہد ہے۔ محمد نظام الدین رضوی) إذا كان قالعا للنجاسة غير متقوم كما قدمناه من جوازه بالخرق البوالي۔ ریت سے استنجا کرنے میں نجاست کے مزید پھیل جانے کا اندیشہ ہے اس لیے ریت سے استنجا نہ کرے صورت مسئولہ میں صرف پانی استعمال کرے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved