26 December, 2024


دارالاِفتاء


کنویں میں بلی، یا چوہا، یا کبوتر گرکر پھول گیا، پھٹا نہیں اور نکال لیا۔ ایسی حالت میں تین دن کی نماز فرض دہرانے کا حکم اور اس کی وجہ تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ #1330

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اس سلسلے میں مفتیٰ بہ صاحبین کا قول ہے کہ جس وقت یہ جانور اس حالت میں کنویں میں دیکھے گئے اس وقت سے کنویں کے ناپاک ہونے کا حکم دیا جائے گا۔ اور امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول ہے کہ: علم کے وقت سے لے کر تین دن پہلے سے کنویں کے ناپاک ہونے کا حکم دیا جائے گا۔ اس میں احتیاط زیادہ ہے؛ اس لیے کہ یہ طے ہے کہ جب وہ جانور پھولا ہوا ہے تو بہت پہلے کا گرا ہوا ہے، کوئی جانور پانی میں گرتے ہی نہیں پھولتا۔ واضح رہے کہ پھولنے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا پیٹ پھولا ہوا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ پانی اس کے رگ وپے میں سرایت کر گیا ہو اور اس کے گوشت پوست کمزور ہو گئے ہوں۔اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ایک مدت تک پانی میں گرکر پڑا رہتا ہے تو پھولتا ہے، اور یہ موسم اور پانی اور جانور کی قوت کے اعتبار سے مختلف مدت چاہتا ہے ۔ گرم پانی میں جلدی پھولے گا، اسی طرح کھاری پانی میں ، اسی طرح گرم موسم خصوصا برسات میں، ٹھنڈے میٹھے پانی میں جاڑوں میں دیر سے پھولے گا۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے تجربہ کے مطابق یہ فرمایا کہ تین دن تک ضرور پھول جائے گا؛ اس لیے اس کی مقدار تین دن رکھی۔ اس کا بھی احتمال ہے کہ یہ جانور پہلے سے گرا ہوا ہو مگر اس کا معلوم کرنا متعذر ہے، اس پر بھی تجربہ شاہد ہے کہ کوئی بھی جاندار پانی میں نیچے تین دن سے زیادہ نہیں رہ سکتا ہے اور جب کنویں سے پانی برابر کھینچا جار ہا ہے تو اغلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی کے برتن میں اسے آنا چاہیے، پانی کی سطح پر دکھائی دینا چاہیے۔ ان سب پر نظر کرتے ہوئے حضرت امام اعظم نے تین دن فرمایا مگر اس میں بھی لوگوں کے لیے حرج ہے ۔(حاشیہ: اور حرج کو شریعت طاہرہ نے دور کیا ہے، ارشاد باری ہے: وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ١ؕ [الحج، آیت: ۷۸] اور اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہ رکھی۔ اور حدیث میں ہے: یسروا ولا تعسروا۔ [صحیح البخاری، کتاب العلم، باب قول النبی یسروا ولا یعسروا، رقم الحدیث: ۶۱۲۴]آسانی لاؤ اور دشواری نہ پیدا کرو۔ اس بنا پر آسان حکم کے بارے میں یہاں یہ غور ہوا کہ اس کا عین امکان ہے کہ چوہا کہیں آس پاس میں مر کر پھول گیا ہو، پھر کسی پرند ے نے اسے اٹھا کر کنویں میں ڈال دیا، اسے دیکھنے والا تو یہی محسوس کرے گا کہ پیٹ میں پانی بھر جانے سے ہ پھول گیا ہے، مگر اس سے ہرگز یہ متعین نہیں ہوتا کہ وہ کنویں کے پانی سے ہی پھولا ہے۔ الغرض جب اس کا امکان ہے کہ وہ کنویں کے باہر کہیں پانی میں گر کر مرا ہو اور وہیں پھول بھی گیا ہو بعد میں اسی حال میں وہ کسی وجہ سے کنویں میں آگیا ہو تو آسانی کے لیے یہی ماناجائے گا کہ وہ کنویں میں اسی وقت گرا جب وہ دیکھا گیا، لہذا کنواں اسی وقت ناپاک قرار دیا جائے گا اور اس سے پہلے اس کنویں کے پانی سے وضو یا غسل کر کے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ صحیح ہوئیں، ان کے دہرانے کا حکم نہ ہوگا۔ امت کی آسانی کے لیے فتوی اسی پر ہے۔ صدر الشریعہ علامہ امجد علی علیہ الرحمۃ والرضوان نے بہار شریعت ،حصہ دوم، ص: ۳۴۲ میں اسی کو اختیار فرمایا ہے۔ مگر چوں کہ پہلے والے احتمال کا بھی امکان ہے جو اصل فتوے میں مذکور ہے؛ اس لیے اس کے پیش نظر احتیاط اسی میں ہے کہ تین دن تین رات پہلے کی نمازیں دہرالی جائیں۔ اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان نے فتاوی رضویہ جلد اول غیر مترجم،ص:۵۷۸ میں اسی کو اختیار فرمایا ہے۔ بہار شریعت کا قول مختار اوسع ہے، اور فتاوی رضویہ کا احوط۔ واللہ تعالی اعلم۔ محمد نظام الدین رضوی) اس لیے تیسیراً صاحبین کے قول پر فتوی ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved