بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: کنویں دو قسم کے ہوتے ہیں : ایک وہ جن کا سوتا تیز جاری ہوتا ہے، پانی نکالتے جائیے نیچے سے پانی بڑھتا جاتا ہے، اس کا پانی ختم نہیں ہوتا، ایسے کنویں اگر ناپاک ہو جائیں اور کل پانی نکالنا ضروری ہو تو حکم یہ ہے کہ کنویں میں جتنا پانی ہو مثلا ہزار ڈول ، دو ہزار ڈول وہ سب نکال دیا جائے۔ اگر چہ کنواں خشک نہ ہو۔ اگر یہ کنواں ایسا ہی تھا اور دن بھر پانی کھنچوانے کے بعد اس کا ظن غالب ہو گیا کہ کنویں میں جتنا پانی موجود تھا اتنا نکل گیا تو کنواں پاک ہو گیا۔ کنویں میں کتنا پانی موجود ہےاس کا اندازہ کرنے کے لیےفقہانے تین طریقے لکھے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے : جن لوگوں کو پانی کی مقدار معلوم کرنے کی مہارت ہے ایسے لوگ جتنا بتائیں اتنا پانی نکالاجائے گا، کم از کم ایسے دو مسلمان پرہیز گار کا اندازہ ضروری ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے : اس پانی کی گہرائی کسی لکڑی یا رسی سے صحیح طور پر ناپ لیں اور چند شخص بہت پھرتی سے سو ڈول مثلا نکالیں پھر پانی ناپیں جتنا کم ہو اسی حساب سے پانی نکالیں، کنواں پاک ہو جائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ناپنے سے معلوم ہوا کہ پانی مثلا دس ہاتھ ہے ، پھر سو ڈول نکالنے کے بعد ناپا تو نو ہاتھ رہا اس سے معلوم ہوا کہ جب سو ڈول نکالنے میں ایک ہاتھ پانی کم ہوا تو کل پانی ایک ہزار ڈول ہے۔ ایک ہزار ڈول پانی نکال دینے سے کنواں پاک ہو جائے گا۔ یہ ایک مثال ہے اگر اس شخص نے ان دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ پر عمل کر کے پانی نکلوایا ہے اور کنواں واقعی ایسا ہی ہے کہ ٹوٹتا نہیں تو کنواں پاک ہو گیا۔ دوسری قسم کنویں کی وہ ہے کہ اس کا سوتا کمزور ہوتا ہے اگر اس میں سےپانی زیادہ مقدار میں جلدی جلدی نکالیں تو سوکھ جاتا ہے ، ایسے کنویں کا حکم یہ ہے کہ جب تک کنویں کا کل پانی اس طرح نہ نکالیں کہ پانی ختم ہو جائے یعنی اتنا کم ہو جائے کہ ڈول یا گھڑا آدھا بھی نہ بھرے اس وقت تک کنواں پاک نہ ہوگا۔ اگر کنواں اس دوسری قسم کا ہے تو پاک نہ ہوا۔واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org