8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص سو کر اٹھا یہاں تک کہ نماز قضا ہو گئی تب وضو کر کے نماز پڑھ لیا اب بتلائیے کہ ایسے شخص کو شریعت کیا کہے گی۔ نیز کوئی سو کر نماز کے آخری وقت میں اٹھا اور اس کو غسل کی ضرورت ہے وہ غسل کرنے لگا ، یا پاخانہ کی حاجت ہے اور رفع حاجت کے لیے گیا دونوں حالت میں نماز قضا ہو گئی کیا ایسے شخص پر گنہ گار کا فتوی عائد ہوگا شرعا بیان کر دیا جائے۔

فتاویٰ #1305

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: پہلی صورت میں اگر اتفاقیہ کبھی ایسا ہو گیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں مگر اس کی عادت ڈالنا ضرور حرام وگناہ ہے ۔(حاشیہ: اس کی صورت یہ ہے کہ کبھی اتفاق سے سونے میں زیادہ دیر ہو گئی اس وجہ سے وہ اتنی دیر سے اٹھا کہ نماز کا وقت گزر چکا تھا، یا گزر رہا تھا تو اس کی وجہ سے گناہ گار نہ ہوگا کہ نیند کے عذر کی وجہ سے تاخیر تقصیر نہیں ۔ ہاں! اگر وہ دیر سے سونے کی عادت بنالے اور وہ جانتا ہے کہ جب دیر سے سوتا ہے تو نماز عموما فوت ہو جاتی ہے تو اسے سونے میں اتنی دیر کرنا حرام وگناہ ہے کہ اگر وہ سونے میں دیر نہ کرتا تو اس کی نماز فوت نہ ہوتی۔ واللہ تعالی اعلم -۱۲ محمد نظام الدین رضوی) دوسری صورت میں غسل کے بجاے تیمم کر کے نماز پڑھ لے بعد میں غسل کر کے نماز دہرائے ۔ تیسری صورت میں پہلے نماز پڑھے پھر پاخانہ جائے اور اگر اس کا اندیشہ ہو کہ نماز پڑھتے پڑھتے کپڑے خراب ہو جائیں گے تو نماز مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved