8 September, 2024


دارالاِفتاء


حاجی علی احمد کے دو لڑکے غلام رسول اور عابد حسین اور دو لڑکیاں زینب و جسیمہ و بیوی ہیں۔ یہ سب لوگ مشترکہ رہتے سہتے تھے۔ لڑکیاں بعد نکاح کے سسرال رہتی ہیں۔ لڑکوں کے بالغ ہونے سے پہلے حاجی علی احمد کی کل جائداد تھی۔ لڑکے بالغ ہونے کے بعد ان کے ساتھ مشترکہ کاروبار کرتے تھے حاجی علی احمد کی جائداد سے تینوں مشترکہ کام کرتے تھے اور ترقی کی اور بنائی کا کام کرتے تھے اور تجارت۔ انتقال کیا غلام رسول نے چھوڑا اپنے باپ حقیقی حاجی علی احمد اور ماں حقیقی کلثوم اور حقیقی بھائی عابد حسین اور دو بہن حقیقی زینب و جسیمہ اور چھوڑا اپنی بیوی اور چار لڑکے نابالغان زائر حسن، کلب حسن، مہدی حسن، ابن حسن اور ایک لڑکی نابالغہ صغریٰ۔دو لڑکے مذکور زائر حسن، کلب حسن اول بیوی رابعہ مرحومہ سے ہیں اور بقیہ لڑکے و لڑکی قسیمہ سے ہیں اور چھوڑا اپنے بھتیجے فیاض حسین، نبی حسین اور عابد حسین کی عورت کو بعدہٗ انتقال کیا عابد حسین نے اور چھوڑا اپنے باپ حقیقی حاجی علی احمد اور حقیقی ماں کلثوم اور حقیقی دو بہن زینب و جسیمہ اور بیوی مسماۃ صابرہ اور دو لڑکے نابالغ فیاض حسین، سجاد حسین اور چار بھتیجے نابالغ زائر حسن، کلب حسن،مہدی حسن، ابن حسن اور ایک بھتیجی نابالغہ صغریٰ اور بھاوج قسیمہ کو بعدہ انتقال کیا عابد حسین کا لڑکا سجاد حسین۔ اب ایسی صورت میں غلام رسول کی زوجہ ثانیہ مسماۃ قسیمہ کو اس ترکہ میں حق ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ہوتا ہے توکتنا؟ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ #1259

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب : سوال میں پورا واقعہ ذکر نہیں کیا گیا ، مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ غلام رسول جو تجارت کرتے تھے وہ اس روپیہ کے مالک بھی تھے کیوں کہ بہی میں اندراج رقم غلام رسول کے نام سے ہے لہذا جو رقم بہی میں غلام رسول کے نام سے درج ہے وہ رقم غلام رسول کی ہے اس لیے کہ اگر وہ رقم حاجی علی احمد ہی کی ہوتی اور غلام رسول اس رقم کے مالک نہ ہوتے تواندراج حاجی علی احمد کے نام سے ہو سکتا تھا۔ تجارت غلام رسول کرتے مگر جب کہ اندراجِ رقم بھی غلام رسول کے نام سے ہے تو ظاہر یہی ہے کہ اس رقم کے مالک غلام رسول تھے۔ لہذا اس رقم سے اور اس کے علاوہ جو بھی شے غلام رسول کی ملک میں تھی اس کا آٹھواں حصہ غلام رسول کی زوجہ قسیمہ کا ہوگاباقی اور ورثہ پر تقسیم ہوگا۔وھو تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved