8 September, 2024


دارالاِفتاء


نعرۂ رسالت اور نعرۂ غوثیت بلند کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟اگر کسی شخص نے نعرۂ رسالت اور نعرۂ غوثیت بلند کرنے والے کو کافر کہہ دیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1199

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: اللہم ہدایۃ الحق و الصواب نعرۂ رسالت یعنی یا رسول اللہ کہنا اور نعرۂ غوثیت یعنی یا غوث کہنا ، اس میں کوئی حرج نہیں ، بلا شبہہ جائز بلکہ باعثِ ہزار خیر و برکت ہے ۔ انبیا ﷩ اور اولیاے کرام مقربانِ بارگاہِ الٰہی سے استعانت اور طلب نصرت نیز بوقت مشکلات و صعوبات ان کو پکارنا اہل سنت کے نزدیک بلا شبہہ جائز و معمول بہ رہا ہے اور اس کا ثبوت صد ہا احادیثِ صحیحہ اوراقوال و افعالِ صحابہ و تابعین و تبع تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں موجود ہے ۔ خود نبی کریم ﷺ نے صحابۂ کرام کو یہ تعلیم فرمائی کہ اپنی حاجتوں کے لیے مجھے پکارو اور نعرۂ رسالت لگاؤ ۔ چناں چہ نسائی شریف ، ابنِ ماجہ شریف ، و ترمذی شریف وغیرہ کتبِ صحاح میں براویت عثمان ابن حنیف یہ حدیث موجوود ہے کہ نبیِ کریم ﷺنے ایک نابینا صحابی کو ایک دعا تعلیم فرمائی ۔ اس میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ: ’’یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہٖ لتقضی لی اللھم فشفعہ فِیَّ‘‘ یعنی یا رسول اللہ میں حضور کو وسیلہ بنا کر اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں تاکہ میری حاجت روا ہو ، الٰہی انھیں میرا شفیع کر ، ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما ۔ اس حدیث میں صاف صاف حاجت کے وقت رسول اللہ ﷺ کو ندا بھی ہے اور حضور اقدس ﷺ سے استعانت و التجا بھی ۔ یہ دعا حضور اقدس ﷺ کے وقت سے برابر صحابۂ کرام ، تابعین عظام اور اولیاے فخام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر دور میں اپنے متوسلین کوتعلیم فرماتے رہے ۔ چنانچہ خود راوی حدیث عثمان ابن حنیف نے خلافتِ امیر المومنین عثمان غنی میں ایک حاجت مند کو یہ دعا تعلیم فرمائی اور اور ان کی حاجت پوری ہو گئی ۔ جیسا کہ معجمِ کبیر طبرانی میں یہ حدیث موجود ہے ۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث ہے جو اکثر کتبِ حدیث میں موجود ہے کہ جب کوئی شخص جنگل میں راستہ بھول گیا ہو تو ’’یا عباد اللہ اعینونی ‘‘کہہ کر پکارے تو رجال الغیب اس کی امداد کرتے ہیں ۔ اس حدیث میں بھی اولیاء اللہ کے نام کا نعرہ لگانے اور پکارنے کا حکم دیا گیا ہے اور مشائخ کرام کا ہمیشہ سے اس پر عمل بھی ہے ۔ چنانچہ امام ابو الحسن نور الدین علی ابن جریر لخمی شطنو فی بہجۃ الاسرارشریف میں اور حضرت ملا علی قاری اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی صلوٰۃ الاسرار کی روایت حضور سیدنا غوث اعظم سے کرتے ہیں ۔ اس میں مذکور ہے کہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد گیارہ بار یہ کہے ،’’ یا رسول اللہ یا نبی اللہ اغثنی و امددنی الخ‘‘ پھر عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور کہے ’’یا غوث الثقلین الخ‘‘۔ یہ سب نعرۂ رسالت و نعرۂ غوثیت نہیں تو اور کیا ہے ۔ فتاویٰ خیریہ میں ہے: ’’قولھم یا شیخ عبد القادر الجیلانی نداء فما الموجب لحرمتہٖ‘‘ یعنی یاشیخ عبد القادر جیلانی کہنا ایک ندا ہے ۔ تواس کی حرمت کا کیا سبب ہے ۔ الغرض انبیاے کرام اور اولیاے عظام کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ جانتے ہوئے اور یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ بغیر حکمِ الٰہی ذرہ نہیں ہل سکتا اور بغیر خدا وند قدوس کی عطا کے ایک حبہ نہیں مل سکتا ، اگر کوئی شخص یا رسول اللہ ، یا غوث ، یا علی کا نعرہ لگائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور بے شک سب مسلمانوں کا یہی اعتقاد ہے ، اس کے خلاف ان پر گمان کرنا نری بدگمانی حرام ہے۔وہابیہ خذلہم اللہ تعالیٰ کا اہل سنت و جماعت پر افترا ہے کہ اہل سنت انبیاے کرام کو متصرف بالذات سمجھ کر مدد طلب کرتے ہیں لاحول ولا قوۃ الا با للہ۔ نعرۂ غوثیت لگانے والے کو اور نعرۂ رسالت لگانے والے کو جو شخص کافر کہتا ہے وہ سخت جاہل بے لگام ہے ، اس پر خود کفر عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک مسلمان کو کافر کہتا ہے اس پر توبہ فرض ہے ۔ یہ شخص غالی وہابی ہے ، وہابیوں سے بھی بڑھ کر دریدہ دہن ہے ۔ اس بد نصیب نے اپنی بے باکی سے لاکھوں کروڑوں اعیانِ دین ،صحابۂ کرام ،تابعین عظام ، مشائخ اور مومنین کو کافر کہہ دیا ، حد ہو گئی کہ وہابیوں کے طاغوتِ اعظم مولوی رشید احمد نے بھی فتاویٰ رشیدیہ میں ’’یا شیخ عبد القادر الجیلانی شیئاً للہ ‘‘ پڑھنے کو جائز بتایا ہے ا ور مولوی قاسم صاحب مہتمم مدرسہ دیوبند نے خود نعرۂ رسالت لگایا ۔ چنانچہ قصائدِ قاسمیہ میں ہے : جو انبیاہیں وہ آگے تیرے نبی کرے ہیں امتی ہونے کا یا نبی اقرار کروڑوں جرموں کے آگے یہ نام کا اسلام کرے گا یا نبی اللہ کیا یہ میری پکار مگر اس بد لگام جاہل نے اس کو کفر بتا کر تمام امت کی تکفیر کر دی ۔ و العیاذ باللہ تعالیٰ منہ ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب،(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved