8 September, 2024


دارالاِفتاء


عزیز اللہ کے سالے نے نیز اس کی زوجہ نے طلاق کے لیے کہا ۔عزیز اللہ نے کہا کس لیے طلاق دوں پھر اس کے سالے نے جواب دیا کہ تم بیچنے چلے جاتے ہو جس کی وجہ سے ہماری ہمشیرہ کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس پر اس کے شوہر یعنی عزیز اللہ نے کہا میں بیچنے نہ جاؤں گا اور کہیں مکان تلاش کر کے رہوں گا ،وہیں لے چلوں گا اور اپنے پاس رکھوں گا۔ اس پر اس کے سالے نے کہا اس پر کوئی شرط لکھ کر مکان تلاش کرنے جاؤ تمہارا کیا اعتبار ہے، اس کے بعد عزیز اللہ نے کہا دو ماہ کے لیے۔ ان لوگوں نے اس کو منظور نہیں کیا اور کہا کہ ایک ہفتہ کے لیے لکھو۔ اگر میں ایک ہفتہ میں مکان تلاش کر کے نہ آؤں تو طلاق ہے۔ اس کے بعدعزیز اللہ کہیں چار ماہ تک نہیں گیا اور اس کی بیوی اس کے ہمراہ رہتی تھی بعد چار ماہ کے مال لے کر وہ پھر بیچنے گیا اور جب باہر آنے جانے لگا تو کوئی شرط نامہ نہیں لکھا گیا، برابر آتا جاتا رہا ،بیس بائیس دن میں آتا تھا مگر ایک مرتبہ زیادہ دیر ہوگئی چار مہینہ میں آیا۔ اس اثنا میں یعنی عزیز اللہ کے باہر جانے کے تین ماہ بعد اس کی بیوی نے دوسرا عقد کرلیا ۔عزیز اللہ جب جاتا تھا تو اس کی رضا مندی سے جاتا تھا پس ایسی صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں؟ اور عقد ثانی درست ہوا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1138

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: یہ شرط کہ” اگر میں ایک ہفتہ میں مکان تلاش کرکے نہ آؤں تو طلاق ہے ‘‘ قرینہ سے ظاہر ہے کہ اس سے مقصود عزیز اللہ کا اس وقت جلد واپس آنا ہے ، لہٰذا اس کے نہ جانے اور مکان نہ تلاش کرنے سے طلاق واقع نہ ہوئی،ہاں اگر جاتا اور ایک ہفتہ میں واپس نہ آتا تو طلاق ہو جاتی لیکن جب گیا ہی نہیں تو طلاق واقع نہ ہوئی۔ چنانچہ عزیز اللہ کے نہ جانے پر اس کی بیوی کا چار مہینہ تک اس کے ساتھ رہنا اس کی تائید کرتا ہے“ اس کے بعد کوئی دوسری شرط نہیں پھر جانے لگا اور پھر بیس بائیس روز میں آتا تھا اور یہ جانا آنا بیوی کی رضا مندی سے تھا اس سے بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک ہفتہ کی شرط اسی وقت کے لیے شرط تھی۔ لہٰذا شرط سے اِس وقت کے جانے اور دیرتک نہ آنے سے طلاق واقع نہ ہوئی اور عقد ثانی درست نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved