22 November, 2024


دارالاِفتاء


زید نے آج اپنی بیوی کو طلاق دی ۔ لیکن عمرو نے اس کے بعد یہ بتایا کہ میں نے زید سے اس کی بیوی کے حق میں ایک سال پیش تر بھی دو شہادتوں کے ساتھ طلاق حاصل کر لی تھی، مگر زید، عمرو اور ہر دو گواہان نے خود عمرو کے ایما سے طلاق کی کارروائی کو صیغۂ راز میں رکھا اور اس ناروا راز داری کے باعث دو صحیح العقیدہ سنیوں کے مابین بلا وجہ دوری اور نزاع کی بنیاد پڑ گئی، متعدد دوستوں کے باہمی تعلقات نہایت مذموم طورپر کشیدہ ہو گئے، نیز بیش تر مسلمانوں کے درمیان میل و محبت کی جگہ نفرت و عداوت کے جذبات مشتعل ہوئے اور ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ عمرو کی ریشہ دوانیوں کے سبب اس سلسلہ میں درمیانی بزرگوں کو ایک طویل زحمت سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ بھی واضح رہے کہ عمرو کے بیان کے مطابق زید نے اپنی بیوی کو آج سے ایک سال قبل طلاق دی ، لیکن ابھی چند مہینے گزرے ہوں گے کہ زید نے برادری کی پنچایت میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کا وعدہ کیا اور اس کے بعد زید کے بزرگوں نے زوردار طریقہ پر یہ سفارش بھی کی کہ لڑکی کی رخصتی کرا دی جائے۔ پس خدا نخواستہ زید کی بیوی رخصت ہو جاتی تو عمرو کی متذکرہ راز دارانہ کارروائی کی وجہ سے معاذ اللہ حرام کاری کا دروازہ بند ہو جاتا۔ ان حالات میں فقہ حنفیہ کی روشنی میں جواب مطلوب ہے کہ: (۱).زید کی بیوی پر عدت آج طلاق کے وقت سے وارد سمجھی جائے گی یا عمرو کے بیان کردہ طلاق سے زمانۂ عدت کا شمار ہوگا؟ اگر ایسا ہی ہوگا تو زمانۂ عدت میں نادانستگی کے سبب عورت کے گھر سے باہر نکلنے اور آنے جانے کے غیر شرعی فعل کا مواخذہ کس سے ہوگا؟ (۲).آج کی طلاق کے ساتھ یہ شرط مربوط ہے کہ عورت کے مطالبۂ طلاق کی بنا پر طلاق دی گئی ہے ، لہٰذا عورت رقم، مہر و خرچہ پانے کی مستحق نہیں ، لیکن عمرو کی بیان کردہ طلاق ہی شرع کے نزدیک قابلِ تسلیم ہے۔ تو اس صورت میں زید کی رقم مہر و خرچہ پانے کی حق دار ہے یا نہیں ؟ جب کہ ظاہر ہے کہ سابقہ طلاق کے وقت عورت کے مطالبۂ طلاق کا کوئی سوال نہ تھا۔ (۳).ایک سال پہلے والی طلاق کو چھپانے کی بنا پر عمرو نے جو عام فتنہ برپا کیا اور سنی مسلمانوں کے دلوں میں باہمی نفرت کی آگ بھڑکائی اور اس مذموم کارروائی میں دو گواہوں اور خود زید نے عمرو کا ساتھ دیا، لہٰذا شرع الٰہیہ کے نزدیک عمروو زید اور دونوں گواہوں کے لیے کیا حکم ہے، آیا ان کی حرکت غیر ایمانی اورشیطانی ہے یا نہیں ۔ (۴).طلاق کو چھپانے کے باعث اگر زید کی بیوی کی رخصتی ہو جاتی تو طلاق کے بعد میاں بیوی کے اختلاط کے ذریعہ ہونے والی حرام کاری کا ذمہ دارکون ہوتا؟ ساتھ ہی یہ بھی وضاحت فرمائیے کہ اس حرام کاری کے ذرائع پیدا کرنے والوں کے لیے خدا اور رسول کا کیا حکم ہے؟ (۵).اگر طلاق راز میں نہ رکھی جاتی تو اب تک غالباً زید کی بیوی زمانۂ عدت گزار کر نکاحِ ثانی کر چکی ہوتی، لیکن عمرو وغیرہ کی اس حرکت کی وجہ سے ایک عورت کو بلا وجہ تا دیر مجرد زندگی گزارنی پڑتی۔ کیا یہ حق دار کا حق غصب کرنے اور بے گناہ پر ظلم کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس ظلم کرنے والے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ امید کہ حضورِ عالی استفتا پیش نظر کا تفصیلی جواب عطا فرماکر شکریہ کا موقع دیں گے۔

فتاویٰ #1113

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: زید نے ایک سال قبل اپنی زوجہ کو عمر وکے بیان کے مطابق طلاق دی۔ اگر اس کے دو گواہ شرعی ہیں اور شہادت دیتے ہیں تو وہ طلاق واقع اور ثابت ہے، کیوں کہ طلاق واقع ہونے کے لیے شوہر کا عاقل بالغ ہونا شرط ہے ۔ طلا ق کا اعلان یا ظاہر کرنا یا عورت کو بتانا شرط نہیں ، لہٰذا وہ طلاق واقع ہو گئی، اگرچہ اس کو صیغۂ راز میں رکھا گیا۔ طلاق کے ظاہر کرنے میں اگر شدید فتنہ کا خوف نہ ہوتا تو صیغۂ راز میں رکھنا کس طرح مناسب تھا۔ لیکن جب پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے مسلمانوں میں نفاق و شقاق اور عداوت پیدا ہو گئی، نیز مطلقہ کا حق بھی فوت ہوا تو ایسی صورت میں زید، عمرو اور دونوں گواہوں کو طلاق ظاہر کرنا لازم تھا۔ پوشیدہ رکھنے سے یہ سب گنہ گار ہوئے۔ ان سب پر توبہ لازم ہے۔ عورت بالکل بے قصور ہے۔ اگر طلاق کے بعد تین حیض پورے ہو گئے تو عدت ختم ہو گئی، عدت کا نفقہ چوں کہ عدت ہی کے لیے ہوتا ہے ، لہٰذا جب عدت ختم ہو گئی تو نفقہ بھی ختم ہو گیا۔ البتہ مہر واجب الادا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved