8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید نے اپنی دخترِ نابالغہ ہندہ کا نکاح کچھ روپیہ لے کر بکر کے ساتھ کیا ۔ بوقت نکاح بکر کی عمر پچپن۵۵چھپن۵۶ سال تھی۔ بعد نکاح جب بکر نے اپنی نابالغہ بی بی ہندہ کو پایا اور دیکھا تو اس سے اور کرانے والے لوگوں پر رنج کا اظہار کیا۔ بعدہ وہ اسی ماہ اپنی ملازمت پر ڈئی سماٹرا ،اکتوبر ۱۹۳۱ء کو چلا گیا جہاں آمد و رفت میں اس شادی سے قبل اپنی دو بیبیوں سترہ سترہ سال انتظار میں ایک کو موت کے گھاٹ اتارا اور دوسری نے عاجز آکر دوسرا نکاح کر لیا، گویا کہ بکر کی یہ قدیم عادت میں داخل ہے۔ ہندہ نابالغہ سے نکاح کر کے جانے کے بعد بکر نے ایک خط اور کرایہ کاجو روپیہ لے گیا تھا، اپنے بھتیجے کے نام ۱۹۳۶ء میں بھیجا تھا ۔ اس خط میں اپنی نابالغہ بی بی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا ، پھر اس کے بعد آج تک خط خطوط نہ آئے۔ یہاں سے تار ،رجسٹری، خط تمام عزیز و اقارب اور ورثا جواب سے محروم ہو کر خاموش ہو گئے ، البتہ قرب و جوار کے رہنے والوں کے خط سے یہ پتہ چلا کہ بکر ڈئی سماٹرا میں موجود ہے اور اپنے بی بی بچوں کے ساتھ ہے اور اس قدر ضعیف و کم زور ہو گیا ہے کہ آنکھ سے بھی معلوم نہیں ہوتا ہے اور مکان پر جانے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ بکر کے مکان پر محلِّ اولیٰ (پہلی زوجہ) کی ایک بیوہ لڑکی تین نابالغ ناتی رہتے ہیں ، انھیں کے ساتھ ہندہ بھی جوان در جوان ہو کر طرح طرح کے مرض و مصیبت میں مبتلا ہو کر تلخ زندگی گزارتی ہے ۔ بکر کی مختصر کھیتی باڑی پر دوسروں کا قبضہ ہے ۔ ہندہ کے میکے والے جاہل خود غرض ہیں۔ ہندہ کی مدد امداد آج تک نہ کیا نہ کر سکتے ہیں اور نہ اتنی صلاحیت ہے کہ بکر کی جائداد الگ کرا کے ہندہ کے نام کرا دیں ۔ آج کل گرانی نے اخلاص و محبت کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ ہندہ کی بری حالت ہے اگر کوئی سسرال میں ہندہ کی مدد کرنا بھی چاہتا ہے تو بد نیت ہے ، ہندہ کا باپ شرابی کبابی ننگا ہے ۔ شادی کیا تو خاندان والے ناخوش ہوئے اور اب تک ہیں ۔ پوشیدہ جا کر نکاح کیا تھا ، ہندہ شرما حضوری میں رہی ، ادب سے کھل کر نہ کہہ سکی ۔ اس کو دھوکا دے کر آج تک رکھا گیا کہ اب آتے ہیں تب آتے ہیں اور بکر کے آنے کی کوئی بھی امید نہیں ، اس لیے ہندہ اپنا دوسرا عقد کرنا چاہتی ہے ۔ علماے کرام اس کے لیے کیا حکم فرماتے ہیں ۔ بکر کے موضع میں اس کا ایک عزیز بہت بااثر شخص تھا جس نے کوشش کر کے شادی کرایا تھا اور بکر کے عیب اس کے ڈر سے افشا نہ ہو سکے ، اس لیے شادی ہو گئی جو کہ ہندہ کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا گیا ۔ علماے کرام ہندہ کو مناسب حکم سے کامیاب فرما کر ثواب کے مستحق ہوں ۔ فقط۔

فتاویٰ #1068

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: ہندہ کا موجودہ شوہر اگر ہندہ کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو عدت گزرنے کے بعد عقد ثانی کر سکتی ہے ورنہ نہیں ۔ قال اللہ تعالیٰ: بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ. نکاح کی گرہ شوہر کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کو سمجھ دار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ ایک عورت کے دو شوہر بیک وقت نہیں ہو سکتے ۔ سائل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا شوہر زندہ ہے ۔ اب اگر عقدِ ثانی کی اجازت دے دی تو بیک وقت دو شوہر ہونا لازم آئے گا جس کی اجازت شریعتِ مطہرہ میں نہیں ہے ۔ ہاں اگر اس کی زندگی دوبھرہو گئی ہو تو اس کے اعزہ و اقارب کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر وہ اعانت نہ کریں تو محلہ کے مسلمانوں سے جو کچھ ہو سکے امداد کریں۔ اس میں ان کے لیے اجرِ عظیم ہوگا اور اگر ہندہ خود محنت مزدوری کر کے اپنا گزر کرے تو اور بہتر ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت) (حاشیہ: یہ اصل حکم ہے اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا تھا، بعد میں حالاتِ زمانہ کے بدل جانے کے باعث یہ اجازت دے دی گئی ، شوہر اسے بے سہارا چھوڑ کر غائب ہو جائے یا کہیں چلا جائے اور بیوی کے گزارے کے لیے مسلسل کوئی انتظام نہ کرے تو وہ قاضیِ شریعت کے یہاں مقدمہ دائر کرے اور قاضیِ شریعت ”تعسرِ نفقہ“ کی تحقیق کے بعد اس کا نکاح فسخ کر دے۔ رسالہ ”قضاۃ کے فرائض و مسائل“ میں اس کی تفصیل موجود ہے جس کی تصدیق کئی ایک اجلہ علما کے ساتھ حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ نے بھی فرمائی ہے۔ یہ رسالہ کتاب ”مجلسِ شرعی کے فیصلے“ جلد اول کے مقدمے میں شاملِ اشاعت ہے۔ (مرتب))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved