8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص مسمی دکھی میاں نے اپنے لڑکے کی بیوی کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔ اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ وہ عورت یعنی دکھی میاں کی بہو دکھی میاں کے لڑکے کے نکاح میں رہی یا نہیں ؟ اگر اس عورت نے دوسرا نکاح کر لیا تو یہ جائز ہوگا یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1066

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: دکھی میاں کے اس فعلِ اشد حرام سے عورت مذکور فی السوال دکھی میاں کے بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی۔ کیوں کہ باپ کی موطوءہ خواہ اس کی منکوحہ ہو یا مملوکہ یا مزنیہ، بیٹے پر قطعاً حرام ہے ۔ قرآن مجید کا حکم ہے: وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ .) ( لفظ نکاح کے حقیقی معنی وطی ہیں اگرچہ عرفاً و شرعاً عقد میں مستعمل ہے، لہذا آیت کے معنی یہ ہوئے کہ جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے وطی کی تم ان سے وطی نہ کرو ۔ چناں چہ تفسیرِ مدارک شریف میں اس آیت کی یہ تفسیر مذکور ہے: ’’وقیل المراد بالنکاح الوطء أی لا تطؤا ما وطی آبائکم و فیہ تحریم وطء موطوء ۃ الأب بنکاح أو بملک یمین أو بزنا کما ھو مذھبنا و علیہ کثیر من المفسرین۔‘‘) ( لہٰذا وہ عورت دکھی میاں کے بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی۔ اس پر لازم ہے کہ وہ بیوی سے متارکہ کرے۔ (یعنی اس سے کہہ دے کہ میں نے تجھے چھوڑ دیا۔مرتب)۔ پھر بعد عدت وہ جس سے چاہے اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved