(۱).اگر امام کو سہو ہو جائے تو مقتدی کو لقمہ دینا جائز ہے۔ ہدایہ میں ہے: ’’و ان فتح علی امامہ لم یکن کلاما استحسانا لانہ مضطر الی اصلاح صلوتہ فکان ہذا من اعمال صلوتہ معنی۔‘‘) ( ہاں اگر امام کو سہو ہوا، پھر اس نے دوسری آیت شروع کر دی تو اب مقتدی لقمہ نہ دے ۔ اگر امام نے لقمہ لے لیا تو اس کی نماز فاسد ہو گئی اور مقتدی کی لقمہ دیتے ہی فاسد ہو چکی تھی۔ ہدایہ میں ہے: ’’ولو کان الامام انتقل الی اٰیۃ اخری تفسد صلاۃ الفاتح و تفسد صلوۃ الامام لواخذ بقولہ لوجود التلقین و التلقن من غیر ضرورۃ۔‘‘) (واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲).کسی حنفی نے اگر شافعی امام کی اقتدا کرنی چاہی تو اس کی تین صورتیں ہیں جو درج ذیل ہیں، ان میں مسئولہ صورت کا مکمل جواب ہو جاتا ہے۔ (الف)----(۱) مذہب حنفی میں کسی زخم سے خون بہہ کر اس جگہ پہنچ جانا جسے حکمِ تطہیر ہو،(۲) منہ بھر کے قے کرنا،(۳) پچھنا لگوانا، وغیرہا امور ناقضِ وضو ہیں ، ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اور مذہبِ شافعی میں ان چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔ ہمارے مذہب میں بلا اعادۂ وضو اس صورت میں نماز باطل ہے اور شافعی مذہب میں درست۔ تو اگر حنفی مقتدی کو معلوم ہے کہ یہ امام ان امور میں احتیاط نہیں کرتا یعنی صرف مسلک شافعیت کی پابندی کرتا ہے ، یا اس نے اس نماز میں احتیاط نہیں کی تو ایسی صورت میں اس کی اقتدا نہیں کرنی چاہیے، اگر کر لیا تو نماز نہ ہوگی۔ اگر ایک حنفی دس شافعی ہوں جب بھی یہی حکم ہے ۔ طرفین کی کمی زیادتی سے اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ حوالہ کے لیے دیکھیے، اسی نمبر کی دفعہ(ب) اور(ج) کی عبارت منقولہ فقہیہ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (ب)----اور اگر معلوم ہو کہ کوئی شافعی المشرب مسائل طہارت و نماز میں ہمارے فرائضِ مذہب کی رعایت کرتا ہے ، یا معلوم ہو کہ اس نماز میں اس نے رعایت کی ہے یعنی اس کی طہارت ایسی نہ ہو کہ حنفیہ کے طور پر وہ طاہر نہ ہو اور اس کی نماز اس قسم کی نہ ہو کہ ہم اس کو فاسد کہیں تو حنفی ایسے شافعی کی اقتدا کر سکتا ہے ، مگر اس صورت میں بھی اگر حنفی امام مل سکتا ہو تو افضل یہی ہے کہ حنفی ہی کو امام بنائیں۔ شامی میں ملا علی قاری سے منقول ہے: ’’ذہب عامۃ مشایخنا الی الجواز اذا کان یحتاط فی موضع الخلاف والا فلا و المعنی انہ یجوز فی المراعی بلا کراہۃ و فی غیرہ معہاثم المواضع المہمۃ للمراعاۃ ان یتوضأ من الفصد و الحجامۃ و القی و الرعاف و نحوذلک لا فیما ہو سنۃ عندہ مکروہ عندنا ۔‘‘) ( نیز اسی میں ہے: ’’ان الاقتداء بالمخالف المراعی فی الفرائض افضل من الانفراد اذا لم یجد غیرہ والا فالاقتداء بالموافق افضل۔‘‘) (واللہ تعالیٰ اعلم۔ (ج)---- اگر نہ معلوم ہو کہ ہمارے مذہب کی رعایت کرتا ہے اور نہ یہ معلوم ہو کہ اس نماز میں رعایت کی ہے تو اس کی اقتدا مکروہ ہے۔ در مختار میں ہے: ’’ان تیقن المراعاۃ لم یکرہ او عدمھا لم یصح و ان شک کرہ۔‘‘) ( سائل کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ احکام واقعی شافعی المذہب شخص کے لیے لکھے گئے ہیں، زمانۂ حال کے وہابیہ غیر مقلدین کے لیے نہیں ۔ یہ بھی بعض جگہ اپنے کو شافعی کہہ گزرتے ہیں ، یہ ان کا تقیہ ہے۔ ایسی حالت میں دھوکا نہ کھائیں ، ان کے پیچھے کسی صورت میں نماز نہ ہوگی۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳، ۴)---- غیر مقلدین کے پیچھے نماز نہیں ہوگی ۔ یہ لوگ عقائد باطلہ رکھتے ہیں ، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے اقوال میں رسول اللہ ﷺ کی توہین ہے اور بعض ایسے ہیں جو ان توہینوں کی تصدیق کرتے ہیں اور سب ایسے ہیں کہ اسماعیل دہلوی مولف تقویۃ الایمان کو اور دیگر بد مذہبوں کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ ائمۂ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید شخصی کو گم راہی کہتے ہیں ۔ ان کے عقائد باطلہ دیکھنے ہوں تو رسالہ مبارکہ ”الکوکبۃ الشہابیہ “ کا مطالعہ کیجیے۔ بہر صورت ان کے پیچھے نماز نہ ہوگی۔ ایسے ہی اُس فرقہ کے پیچھے بھی نماز نہ ہوگی جو اہلِ حدیث ہونے کا مدعی ہے ۔ یہ فرقہ وہابیہ غیر مقلدین کے علاوہ کسی دوسری جماعت کا نام نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے عقائد باطلہ پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے کو اہلِ حدیث کہتے ہیں۔ جو کوئی غیر مقلدین کا عقیدہ رکھتا ہو ، اگرچہ وہ حنفی طور پر نماز پڑھتا ہو، اس کے پیچھے نماز نہ ہوگی۔ حنفی مقتدی کے لیے اتنا کافی نہیں ہے کہ اس کا امام اس کے طور پر نماز پڑھتا ہو بلکہ اس کا صحیح العقیدہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ تفصیل کے لیے رسالہ »النھی الاکید« کا مطالعہ کرو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۵).سائل کا مقصد کس قسم کی متابعت کو دریافت کرنا ہے ، متابعت فی القراء ت یا متابعت فی الارکان۔ مقتدی پر پہلی قسم کی متابعت نہیں یعنی جب امام نماز میں قرآن کریم پڑھے تو مقتدی اس میں امام کی متابعت نہ کرے ، بلکہ خاموش رہے ۔ اگر کوئی قراء ت خلف الامام کرے گا تو نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی۔ قال اللہ تعالیٰ: ’’وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لُہٗ وَاَنِصْتُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔‘‘) ( شامی میں ہے: ’’واختلف فی المتابعۃ فی الرکن القولی و ھو القراءۃ فعندنا لا یتابع فیہا بل یستمع و ینصت و فیما عدا القراء ۃ من الاذکار یتابعہ۔‘‘ ) ( اسی میں ہے: ’’فلو قرأ خلف امامہ کرہ تحریما۔‘‘ ) ( اور متابعت فی الارکان کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک عدم المسابقت۔ یہ فرض ہے ، اس کو یوں سمجھو کہ کسی مقتدی نے کسی رکن کو امام سے پہلے ادا کیا پھر اس نے اس رکن کو نہ تو امام کے ساتھ ادا کیا نہ امام کے ادا کرنے کے بعد ، اس صورت میں نماز باطل ہوگی۔ مثلاً امام سے پہلے مقتدی نے رکوع یا سجدہ کر لیا اور امام ابھی رکوع یا سجدہ میں آیا بھی نہ تھا کہ اس نے سر اٹھا لیا ، اور جب امام رکوع یا سجدہ میں گیا تو اس کے ساتھ رکوع یا سجدہ نہ کیا اور نہ بعد امام کے ادا کرنے کے تو اس کی نماز باطل ہوگئی۔ اور دوسریِ قسمِ متابعت ، وہ یہ کہ امام کے پہلے بھی کوئی رکن ادا نہ کرے اور نہ بعد کوبلکہ ساتھ ساتھ، یہ واجب ہے۔ شامی میں ہے: ’’(قولہ و متابعتہ لامامہ فی الفروض) ای بان یاتی بہا معہ او بعدہ حتی لورکع امامہ و رفع فرکع ھو بعدہ صح بخلاف مالورکع قبل امامہ و رفع ثم رکع امامہ ولم یرکع ثانیا مع امامہ او بعدہ بطلت صلاتہ فالمراد بالمتابعۃ عدم المسابقۃ نعم متابعتہ لامامہ بمعنی مشارکتہ لہ فی الفرائض معہ لا قبلہ ولا بعدہ واجبۃ۔(الی قولہ) و احترز بالفروض عن الواجبات والسنن فان المتابعۃ فیھا لیست بفرض فلا تفسد الصلاۃ بترکہا۔‘‘) ( واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org