بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــ: (۱).جب کہ زید ۶۰؍ تولے چاندی کامالک ہے اور وہ اس کی حاجت اصلیہ سے فارغ ہے تو وہ صاحب نصاب یعنی غنی ہے ، اس کو زکاۃ نہیں دے سکتے ۔ خود اس پر زکاۃ فرض ہے۔ شامی میں ہے: ’’ولا یجوز دفع الزکاۃ إلی من ملک نصابا سواء کان من النقود أو السوائم۔‘‘ ) ( ہاں اگر زید اتنے کا مقروض ہو کہ قرضہ ادا کرنے کے بعد ساڑھے باون تولے چاندی اس کی ملکیت میں نہیں باقی رہتی نہ حوائج اصلیہ سے فارغ اتنے کا کوئی اور مال رہتا ہے تو وہ صاحب نصاب نہیں ہے ، اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں (بہ شرطے کہ وہ ہاشمی نہ ہو)۔ شامی میں ہے: ’’(وفسرہ ابن ملک) أي فسر المشغول بالحاجۃ الأصلیۃ و ھي ما یدفع الھلاک عن الإنسان تحقیقا کالنفقۃ والدور السکنیٰ أو تقدیرا کالدین فإن المدیون محتاج إلی قضائہ بما في یدہ من النصاب دفعا عن نفسہ الحبس الذي ھو کالھلاک فإذا کان لہ دراہم مستحقۃ بصرفھا إلی تلک الحوائج صارت کالمعدومۃ، کما أن الماء المستحق بصرفہ إلی العطش کان کالمعدوم وجاز عندہ التیمم (إنتہیٰ ملخصاً)۔‘‘ ) ( واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲).جس کی معاشی حالت اوسط درجہ کی ہوتی ہے اس کے پاس نصاب زکاۃ سے کہیں زائد حوائج اصلیہ سے فارغ مال ہوتا ہے بلکہ مقدار نصاب تک چاندی کے زیورات تو عام طور پران لوگوں کے پاس بھی ہوتے ہیں جو لوگوں میں تنگ دست اور مفلوک الحال شمار ہوتے ہیں بکر تو متوسط الحال ہے اوسط درجہ پر گزر کرنے والے کے پاس تو کم و بیش ہزار روپیہ نقد بھی موجود رہتا ہے ۔ ایسے شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے۔ اس کے وجوب کے لیے حوائج اصلیہ سے فارغ مالِ نصاب کا مالک ہونا ضروری ہے۔اس میں نامی ہونے کی بھی شرط نہیں۔ عالمگیری میں ہے: ’’وھی واجبۃ علی الحر المسلم المالک لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجہ الأصلیۃ کذا في الاختیار شرح المختار ولا یعتبر فیہ وصف النماء۔‘‘ ) ( واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳).موجودہ روپیہ نہ تو خالص چاندی کا ہے نہ اس میں چاندی غالب ، لہٰذااس کے قدر نصاب کا اندازہ یوں ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے روپیوں میں ساڑھے باون تولے چاندی ملتی ہو اتنے مقدارِ نصاب ہیں آپ بازار سے بھاؤ معلوم کر کے اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org