22 November, 2024


دارالاِفتاء


زید ماہ شوال کے شروع ہی میں رمضان شریف کے آخری دن کو زکات کی گنتی کے لیے شمار کرتا ہے اسے یہ نہیں معلوم کہ زکات کے لیے سال کے کون سے ماہ سے کون سے ماہ تک گنتی میں لیا جائے یعنی زید رمضان شریف میں بڑا حصہ زکات کا حق داروں کو ادا کرتا ہے لیکن ایک بیوہ جس کا گزارہ لوگوں کے گھر کے برتن کپڑے وغیرہ دھونے پر چلتا ہے ۔ اس کی دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ہیں وہ بھی وہی کام کرتی ہیں، ایک لڑکی کچھ پاگل ہے اور ایک پانچ چھ برس کا لڑکا ہے۔ اس کی بڑی لڑکی کی شادی ہونے والی ہے اور بہت غریب ہے لہذا اس غریب کی شادی کے وقت ان کے لیے زکات کی رقم الگ دینے کے لیے رکھی ہے۔ زکات جلد ادا کرنے کا حکم ہے لیکن ڈر ہے وہ اس کو فضول خرچ کر ڈالے گی اس لیے رکھی ہے تو کیا حکم ہے؟ نذیر جون پورا، بڑودہ ، گجرات ۱۳؍ جمادی الاولیٰ

فتاویٰ #2636

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم - الجواب----- - افضل یہی ہے کہ سال پورا ہوتے ہی فوراً بلا تاخیر زکات ادا کردی جائے لیکن بضرورت تاخیر میں کوئی حرج نہیں۔ سوال میں جو تاخیر کی وجہ لکھی ہے وہ معقول ہے، آسانی کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ شوال کی پہلی تاریخ سے رمضان کی تیس تک زکات کے لیے متعین کر لیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved