زکات واجب ہونے کے لیے مال کا نامی ہونا ضروری ہے اور مال نامی منحصر ہے نقدین ، مال تجارت اور سوائم میں۔ الفتاوی الہندیہ میں ہے: ومنها: كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة، أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه . وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين: خلقي، وفعلي هكذا في التبيين. فالخلقي الذهب والفضة ؛ لأنهما لا يصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة، والفعلي ما سواهما ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة ، ونية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة(الفتاوی الہندیۃ، ص: ۱۹۲، ج:۱،کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیرہا وصفتہا وشرائطہا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان۔)۔ کھیت، کرایے کے مکان وغیرہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ مال نامی نہیں ہوتے۔ اور یہ قید کہ ’’غلہ اتنا پیدا ہوتا ہو کہ سال بھر کی اس کی ضروریات کے لیے کافی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے ۔‘‘ وہ اس بنا پر ہے کہ قربانی کے وجوب کے لیے مال نامی ہونا شرط نہیں ۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: ذي نصاب فاضل عن حاجته الأصلية وإن لم ينم وبه تحرم الصدقة وتجب الأضحية .( تنویر الأبصار مع الدر المختار، ج: ۳،ص: ۳۱۳، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان۔) رد المحتار میں ہے: سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة ؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا، وعليه الفتوى.( رد المحتار علی ہامش الدر المختار، ص: ۲۹۶، ج:۳،کتاب الزکاۃ، باب المصرف، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان۔) ان سب کا حاصل یہ نکلا کہ زکات واجب ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ مال کا نامی ہونا ضروری ہے، کھیت مال نامی نہیں اس لیے کسی کے پاس کتنا ہی کھیت ہو اس پر کھیت کی وجہ سے زکات واجب نہیں ہوگی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کھیت کی پیداوار میں عشر یا خراج ہے اب اگر کھیت کی وجہ سے زکات بھی واجب کریں گے تو ایک ہی مال پر دو دو واجب ہو جائیں گے۔ شریعت نے رحم فرماتے ہوئے صرف ایک ہی وظیفہ رکھا مگر چوں کہ یہ حوائج اصلیہ میں نہیں؛ اس لیے اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے۔ لیکن مطلقا قربانی وصدقۂ فطر واجب کرنے میں ضیق ہے، اس لیے یہ شرط زیادہ کی گئی کہ کھیت کی پیداوار اتنی زیادہ ہو کہ اس کے اور اس کے عیال کے نفقہ واجبہ کے لیے سال بھر تک کافی ہو۔ ’’ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ‘‘ (سورۃ الحج، آیت: ۷۸۔)۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org