22 November, 2024


دارالاِفتاء


ماہنامہ استقامت ڈائجسٹ کان پور کا شمارہ اکتوبر ۱۹۸۵ءمیں شامل مسائل ضروریہ کے تحت قاضی محمد عطاء الحق صاحب رضوی علاؤ الدین پوری کا سوال نمبر (۲) زید کسی اور قسم کا مال نصاب نہیں رکھتا ہے البتہ اس کے پاس چند بیگھہ کھیت ہے جس کی قیمت ساڑھےباون تولہ کو پہنچتی ہے تو زید پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے یا نہیں؟ اس پر حضور والا کا جواب نمبر (۲) یوں ہے: کھیت حوائج اصلیہ سے نہیں ہے اس لیے اگر کھیت کی قیمت بقدر نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے بشرطےکہ پیداوار اتنی ہوتی ہو کہ جو سال بھر کی ضرورت کو کافی ہو۔ واللہ تعالی اعلم غور طلب امر یہ ہے کہ یوپی کے اندر اس وقت زمین کی قیمت پانچ ہزار روپے بیگھہ سے کم نہیں ہے اور چند بیگھہ کھیت کی قیمت کئی ہزار روپے ہوجاتی ہے جب کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ڈھائی ہزار روپے سے زیادہ (آج کل کے بھاو کے حساب سے) ہوتی ہی نہیں ہے۔ اور چوں کہ کھیت کی قیمت کئی ہزار روپے ہوتی ہے جو نصاب سے اوپر ہے اور نصاب قربانی کو واجب کرتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی واجب ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو آپ نے شرط لگائی ہے یہ سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ’’بشرطےکہ پیدا وار اتنی ہوتی ہو کہ جو سال بھر کی ضرورت کو کافی ہو۔‘‘ پھر دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کھیت حوائج اصلیہ سے نہیں ہے اور اس کی قیمت بقدر نصاب ہو تو پھر قربانی ہی واجب ہوگی یا زکات اور صدقۂ فطر بھی؟ اگر کھیت کی قیمت بقدر نصاب پہنچ گئی تو زکات ادا کرنے کی کیا صورت ہوگی؟ بینوا توجروا محمد مظفر احمد قادری رضوی، دار العلوم فیض الاسلام، کشکال، ضلع بستر، ایم پی

فتاویٰ #2627

زکات واجب ہونے کے لیے مال کا نامی ہونا ضروری ہے اور مال نامی منحصر ہے نقدین ، مال تجارت اور سوائم میں۔ الفتاوی الہندیہ میں ہے: ومنها: كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة، أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه . وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين: خلقي، وفعلي هكذا في التبيين. فالخلقي الذهب والفضة ؛ لأنهما لا يصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة، والفعلي ما سواهما ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة ، ونية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة(الفتاوی الہندیۃ، ص: ۱۹۲، ج:۱،کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیرہا وصفتہا وشرائطہا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان۔)۔ کھیت، کرایے کے مکان وغیرہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ مال نامی نہیں ہوتے۔ اور یہ قید کہ ’’غلہ اتنا پیدا ہوتا ہو کہ سال بھر کی اس کی ضروریات کے لیے کافی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے ۔‘‘ وہ اس بنا پر ہے کہ قربانی کے وجوب کے لیے مال نامی ہونا شرط نہیں ۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: ذي نصاب فاضل عن حاجته الأصلية وإن لم ينم وبه تحرم الصدقة وتجب الأضحية .( تنویر الأبصار مع الدر المختار، ج: ۳،ص: ۳۱۳، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان۔) رد المحتار میں ہے: سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة ؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا، وعليه الفتوى.( رد المحتار علی ہامش الدر المختار، ص: ۲۹۶، ج:۳،کتاب الزکاۃ، باب المصرف، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان۔) ان سب کا حاصل یہ نکلا کہ زکات واجب ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ مال کا نامی ہونا ضروری ہے، کھیت مال نامی نہیں اس لیے کسی کے پاس کتنا ہی کھیت ہو اس پر کھیت کی وجہ سے زکات واجب نہیں ہوگی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کھیت کی پیداوار میں عشر یا خراج ہے اب اگر کھیت کی وجہ سے زکات بھی واجب کریں گے تو ایک ہی مال پر دو دو واجب ہو جائیں گے۔ شریعت نے رحم فرماتے ہوئے صرف ایک ہی وظیفہ رکھا مگر چوں کہ یہ حوائج اصلیہ میں نہیں؛ اس لیے اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے۔ لیکن مطلقا قربانی وصدقۂ فطر واجب کرنے میں ضیق ہے، اس لیے یہ شرط زیادہ کی گئی کہ کھیت کی پیداوار اتنی زیادہ ہو کہ اس کے اور اس کے عیال کے نفقہ واجبہ کے لیے سال بھر تک کافی ہو۔ ’’ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ‘‘ (سورۃ الحج، آیت: ۷۸۔)۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved