زمین یا مکان پر زکات نہیں اگرچہ مکان کرایے پر اٹھا ہوا ہو، زکات صرف مال نامی پر ہے اور مال نامی منحصر ہے چار چیزوں میں۔ (۱) سونا (۲) چاندی (۳) مال تجارت (۴) چرائی کے جانور۔ کرایے کا مکان کتنی ہی قیمت کا ہو، کرایہ کتنا ہی آتا ہو اس پر زکات نہیں، ہاں کرایہ کی آمدنی اتنی زیادہ ہو کہ ضرورت پوری کر لینے کے بعد بقدر نصاب بچے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکات ہے جس طرح دوسری آمدنی پر ہے۔ اسی طرح ہینڈلوم اور مشینری پر زکات نہیں۔ خواہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو ؛ کیوں کہ یہ صنعت وحرفت کے آلات میں سے ہیں۔ جن پر زکات نہیں ۔ ہاں! ہینڈلوم کی آمدنی اگر اپنی ضروریات پوری کر لینے کے بعد بقدر نصاب بچے اور سال گزر جائے تو اس پر زکات ہے۔ ہاں! کھیت اور باغ میں ان کی پیدا وار پر زکات ہے جسے عشر کہا جاتا ہے۔ اگر وہ کھیت اور باغ ایسا ہے کہ وہ صرف آسمانی بارش سے تیار ہوجاتا ہے جیسے دھان ، خود محنت کر کے یا قیمت دے کر پانی حاصل کر کے اسے نہیں سینچا جاتا تو اس میں پیداوار کا دسواں حصہ ہے خواہ غلہ پیدا ہو یا پھل یا سبزی۔ اور اگر اس کھیت یا باغ کو اپنی محنت سے پانی کھینچ کر یا پانی کی قیمت دے کر سینچتے ہیں تو اس میں بیسواں حصہ واجب ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔ ۱۲؍ شعبان ۱۴۱۲ھ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org