22 November, 2024


دارالاِفتاء


زکات واجب ہونے کی شرائط کیا ہیں:

فتاویٰ #2585

ارکان اسلام میں نماز کے بعد دوسرا اہم رکن زکات ہے۔ لغوی اعتبار سے زکات کا لفظ دو معنوں کاحامل ہے، اس کے ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے کے ہیں اور دوسرے معنی نشوونما اور بالیدگی کے ہیں جس میں کسی چیز کے بڑھنے، پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ زکات فرض ہےاس کا منکر کافر، اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادا میں تاخیر کرنے والا گنہگار مردود الشہادہ ہے۔(بہار شریعت، حصہ پنجم ، ص: ٨٧٤ ، زکات کا بیان ، مطبوعہ دعوت اسلامی) زکات کی تعریف: زکات شریعت کی جانب سے مقرر کردہ اس مال کو کہتے ہیں جس سے اپنا نفع ہر طرح سے ختم کرنے کے بعد رضاے الہٰی عَزَّوَجَلَّ کے لیے کسی ایسے مسلمان فقیر کی ملکیت میں دے دیا جائے جو نہ تو خود ہاشمی ہو اور نہ ہی کسی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام ہو ۔(در مختار) زکاۃ واجب ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں: (۱) -مسلمان ہونا۔ کافر پر زکاۃ واجب نہیں یعنی اگر کوئی کافر مسلمان ہوا تو اُسے یہ حکم نہیں دیا جائے گا کہ زمانہ کفر کی زکاۃ ادا کرے۔ (عامہ کتب) معاذ اﷲ کوئی مرتد ہوگیا تو زمانہ اسلام میں جو زکاۃ نہیں دی تھی ساقط ہوگئی۔ (فتاوی ہندیہ) (۲) -بلوغ۔ (۳) -عقل، نابالغ پر زکاۃ واجب نہیں اور جنون اگر پورے سال کو گھیرلے تو زکاۃ واجب نہیں اور اگر سال کے اوّل آخر میں افاقہ ہوتا ہے، اگرچہ باقی زمانہ جنون میں گذرتا ہے توواجب ہے، اور جنون اگر اصلی ہو یعنی جنون ہی کی حالت میں بلوغ ہوا تو اس کا سال ہوش آنے سے شروع ہوگا۔ یو ہیں اگر عارضی ہے مگر پورے سال کو گھیر لیا تو جب افاقہ ہوگا اس وقت سے سال کی ابتدا ہوگی۔ (جوہرہ، فتاوی ہندیہ، ردالمحتار) (۴) -آزادہونا۔ غلام پر زکاۃ واجب نہیں، اگرچہ ماذون ہو (یعنی اس کے مالک نے تجارت کی اجازت دی ہو) یا مکاتب یا ام ولد یا مُستسعےٰ (یعنی غلام مشترک جس کو ایک شریک نے آزاد کر دیا اور چونکہ وہ مالدار نہیں ہے، اس وجہ سے باقی شریکوں کے حصے کما کر پورے کرنے کا اُسے حکم دیا گیا)۔ (فتاوی ہندیہ وغیرہ) (۵) -مال بقدر نصاب اُس کی مِلک میں ہونا، اگر نصاب سے کم ہے تو زکاۃ واجب نہ ہوئی۔ (تنویر، فتاوی ہندیہ) (۶) -پورے طور پر اُس کا مالک ہو یعنی اس پر قابض بھی ہو۔ (۷) -نصاب کا دَین سے فارغ ہونا۔ (۸) -نصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو۔ (۹) -مال نامی ہونا یعنی بڑھنے والا خواہ حقیقۃً بڑھے یا حکماً یعنی اگر بڑھانا چاہے تو بڑھائے یعنی اُس کے یا اُس کے نائب کے قبضہ میں ہو، ہر ایک کی دو صورتیں ہیں وہ اسی لیے پیدا ہی کیا گیا ہو اسے خلقی کہتے ہیں، جیسے سونا چاندی کہ یہ اسی لیے پیدا ہوئے کہ ان سے چیزیں خریدی جائیں یا اس لیے مخلوق تو نہیں، مگر اس سے یہ بھی حاصل ہوتا ہے، اسے فعلی کہتے ہیں۔ سونے چاندی کے علاوہ سب چیزیں فعلی ہیں کہ تجارت سے سب میں نُمو ہوگا۔ سونے چاندی میں مطلقاً زکاۃ واجب ہے، جب کہ بقدر نصاب ہوں اگرچہ دفن کر کے رکھے ہوں، تجارت کرے یا نہ کرے اور ان کے علاوہ باقی چیزوں پر زکاۃ اس وقت واجب ہے کہ تجارت کی نیّت ہو یا چرائی پر چھوٹے جانور و بس، خلاصہ یہ کہ زکاۃ تین قسم کے مال پر ہے۔ (۱) ثمن یعنی سونا چاندی۔ (۲) مال تجارت۔ (۳) سائمہ یعنی چرائی پر چھوٹے جانور۔ (عامہ کتب) (۱۰) -سال گزرنا، سال سے مراد قمری سال ہے یعنی چاند کے مہینوں سے بارہ مہینے۔ شروع سال اور آخر سال میں نصاب کامل ہے، مگر درمیان میں نصاب کی کمی ہوگئی تو یہ کمی کچھ اثر نہیں رکھتی یعنی زکاۃ واجب ہے۔ (فتاوی ہندیہ) (ماخوذ از بہار شریعت، حصہ پنجم، زکات کا بیان)(محمد نظام الدین رضوی، شارح بخاری دار الافتا، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ )(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۷)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved