----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- حامداو مصلیاو مسلما زید نے اگر قصداً سورۂ فاتحہ کے بعد ضم سورہ نہیں کیا تو نماز واجب الاعادہ ہوئی۔ سجدۂ سہو سے یہ نقصان پورا نہ ہوگا۔ اس لیے کہ زید کو بھی تسلیم ہے کہ ضم سورہ واجب ہے اور حکم یہ ہے کہ قصداً واجب چھوڑنے کے بعد سجدۂ سہو سے کام نہیں چلے گا۔ سجدۂ سہو اس وقت مفید ہے جب سہواً واجب چھوٹ جائے ۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: ویجب بترک واجب مما مر في صفۃ الصلاۃ سہوا فلا سجود في العمد۔ انھی میں ہے: فإن زادعامدا کرہ فتجب الإعادۃ أو ساہیا وجب علیہ سجود السہو۔ در مختار میں ہے: وتعاد وجوبا في العمد والسہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا یکون فاسقا اٰثما۔ اور بھول کر ضم سورت نہیں کیا تھا تو سجدۂ سہو واجب ہے۔ اور زید نے جو مجتہدانہ دلیل پیش کی ہے وہ اس کی نافہمی کی دلیل ہے۔ سورۂ فاتحہ کا وجوب ’’ فَاقْرَءُوْاوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ١ؕ ‘‘ سے نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہے اگر ’’ فَاقْرَءُوْاوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ١ؕ ‘‘ سے ثبوت ہوتا تو سورۂ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہوتا ۔غالباً زید کو دھوکا ہوگیا۔ یہاں دو باتیں ہیں۔ نماز میں مطلق قراءت قرآن کا فرض ہونا یہ آیت کریمہ ’’ فَاقْرَءُوْاوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ١ؕ ‘‘ سے ثابت ہے ۔ دوسرے سورۂ فاتحہ اور ضم سورہ کا واجب ہونا یہ احادیث سے ثابت ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی ہر رکعت میں قرآن مجید کی ایک ایک آیت پڑھ لے یعنی واجبات ونوافل میں اور فرض کی دو رکعتوں میں اور رکوع کرے تو فرض ادا ہو گیا لیکن واجب ترک ہوگیا۔واجب اس وقت ادا ہوگا جب کہ پوری سورۂ فاتحہ اور ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھے۔ ان دونوں میں سے اگر ایک کو بھی چھوڑا تو واجب ادا نہ ہوا۔ قصداً چھوڑا تو نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب اور بھول کر چھوڑا تو سجدۂ سہو واجب۔ سجدۂ سہو نہ کیا تو نماز کا اعادہ واجب۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org