8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید کے لڑکے کی شادی بکر کی لڑکی سے طے ہوئی۔ بارات کے دن زید اور بکر کے درمیان کچھ باتیں ہوئیں جس کی وجہ سے بارات بغیر نکاح کے واپس ہو گئی ۔ اب زید کے بھائی نے اپنے پٹی داری (برادری)کے چچا زاد بھائی سے کہا کہ آپ اپنے لڑکے کی شادی بکر کی لڑکی سے کردو۔ بہر حال زید کے چچا زاد بھائی تیار ہونے لگے تو زید نے کہا کہ آپ اس لڑکی سے اپنے لڑکے کی شادی نہ کیجیے اس لیے کہ میرے لڑکے سے اور بکر کی لڑکی سے تعلق ہے۔ بارات جانے کے پہلے سے میرا لڑکا وہاں آتا جاتا تھا اور بارات واپس آنے کے بعد بھی تین بار گیا ہے۔ اس سے اور اس لڑکی سے تعلق ہے اور لڑکے نے خود بھی اقرار کیا ہے ، مثلاً لڑکے نے یہ کہا ہے کہ میں چھلانگ بھی لگا چکا ہوں وغیرہ وغیرہ۔آپ اگر شادی کر لیں گے تو ہم سے اور آپ سے دشمنی اور مارپیٹ بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ سب کہنے کے بعد جس لڑکی کی بارات واپس ہوئی تھی اس سے چھوٹا لڑکا جو ہے اس کے ساتھ زید نے بکر کی لڑکی سے شادی کر دی ۔زید کے باپ جو کہ حافظ اور مسجد کے امام بھی ہیں انھوں نے بھی جو باتیں زید نے کہی تھیں وہی باتیں کہیں۔ ایسی صورت میں از روے شرع زید کے لیے کیا حکم ہے اور حافظ موصوف کے پیچھے نماز پڑھی جائے کہ نہیں اور ان کے یہاں کھانا پینا جائز ہے کہ نہیں؟ شریعت کا جو حکم ہو جاری فرمائیں۔

فتاویٰ #1899

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- زید کے والد کو فوراً امامت سے الگ کیا جائے۔ جس وقت سے اس نے وہ باتیں کہی ہیں اس وقت سے اب تک جتنی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی ہیں سب کا دہرانا واجب ہے۔ اس نے ایک مسلمان لڑکی پر زنا کا الزام لگایا ہے۔ اس پر فرض ہے کہ چار عادل مرد چشم دید گواہوں کو پیش کرے ورنہ وہ اسّی کوڑے کا مستحق ہے ، اور وہ ہمیشہ کے لیے فاسق ، مردود الشہادۃ ہے۔ ارشاد ہے: وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ۰۰۴ جو لوگ مسلمان پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت رکھیں، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انھیں اسّی کوڑے ماریں، اور ان کی کبھی بھی گواہی قبول نہ کریں، یہی لوگ فاسق ہیں۔ اور فاسق کو امام بنانا گناہ اور معزول کرنا واجب۔ اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved