8 September, 2024


دارالاِفتاء


بے نمازی کا بفرمان نبی ﷺ اسلام میں کوئی حق نہیں۔اس کے گھر میں آگ لگادوں۔اس کی نظر کسی شے میں ایک مرتبہ لگ جائے تو چالیس سال دن ورات تک وہ شے رحمت وبرکت سے محروم ہو جائے۔ مسلم وغیر مسلم میں صرف نماز کا فرق ہے۔ وبعض صحابہ کرام نے اسے کفر کہا۔ وبعض صحابہ کرام نے کہا وہ کافر ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا اسے قید کیا جائے۔ امام شافعی نے کہا : اسے قید کیا جائے اور قتل کیا جائے۔ حضور غوث الوری ﷫ نے کہا : بے نمازی جب مرجائے تو اسے نہ غسل دیا جائے نہ کفن دیا جائے نہ نماز جنازہ پڑھی جائے نہ قبر ستان میں دفن کیا جائے۔لہذا اب ایسی صورت میں امام مسجد کو بے نمازی کے یہاں کھانا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ #1885

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- آپ نے بے نمازی کے بارے میں جو کچھ نقل کیا ہے ان میں سے کچھ باتیں صحیح ہیں بلکہ اکثر صحیح ہیں۔ بعض باتیں بے بنیاد ہیں مثلا یہ کہ اس کی نظر کسی شے میں ایک مرتبہ لگ جائے تو چالیس سال دن رات تک وہ شے رحمت وبرکت سے محروم ہو جائے۔ ایسی وعید میری نظر سے کہیں نہیں گزری اور نہ یہ صحیح ہو سکتی ہے۔ ورنہ پھر سارا جہاں ہمیشہ اللہ کی رحمت سے محروم رہے، اس قدر میں کوئی شبہہ نہیں کہ بے نمازی سخت فاسق معلن ہے مگر اتنا تشدد کہ اس کے یہاں کھانا پینا جائز نہ ہو اس بات کی جانب مفضی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان عوام وخواص سب گنہ گار ہیں کون ایسا عالم یا مقتداے دینی ہوگا جس نے بے نمازی کے یہاں نہ کھایا ہو یا نہ کھاتا ہو ۔ اب اگر آپ کے امام نے کھا لیا تو صرف امام ہی کے بارے میں کیوں سوال کرتے ہیں سب کھانے والوں کے بارے میں کیوں نہیں سوال کرتے؟ کسی مسلمان کے پیچھے اس طرح پڑنا کہ اسے خواہ مخواہ گنہ گار ٹھہرایا جائے خود گناہ ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved