8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید ہمارے یہاں کا امام ہے اور وہ مسلک حنفی کی اقتدا کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا کوئی ضروری نہیں صرف داڑھی ہونی چاہیے، نہ داڑھی منڈانا حرام ہے نہ کترانا بلکہ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم کو کوئی صحیح حدیث راوی کے ساتھ دکھا دو جس میں یہ ہو کہ ایک مشت سے کم رکھنا حرام ہو یا کتروانا حرام ہو تو ہم دس ہزار روپیہ انعام دیں گے اور یہاں پر بلکہ پورے تمل ناڈو میں وبا پھیلی ہوئی ہے کہ اکثر امام یہاں کے داڑھی منڈے ہیں ، شاید وباید کوئی امام داڑھی والا ملتا ہے ایسی صورت میں یہاں کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا اور دیگر شرعی کاموں میں اس کو امام بنانا کیسا ہے؟ براے کرم بحوالہ کتب تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ #1871

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ، کترواکر ایک مشت سے کم کرنا ناجائز وگناہ ہے جو اس کا عادی ہو وہ فاسق معلن ہے اسے امام بنانا گناہ ۔ اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔ ہدایہ میں ہے: السنۃ فیہا القبضۃ۔[حاشیہ: الدر المختار،ص:۵۸۳،ج:۹،کتاب الخطر والاباحۃ، باب الاشراء وغير، دار الکتب العلميہ، بیروت۔ ہدایہ کی عبارت اس طرح ہے: ولا یفعل التطویل للحیۃ إذا کانت بقدر المسنون وہو القبضۃ۔ (ج:۱،ص:۲۰۱، کتاب الصوم، باب ما یوجب القضاء والکفارۃ، مجلس البرکات)]ایک مشت داڑھی سنت ہے۔ امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں فرمایا: أما الأخذ منہا وھي دون ذلک فلم یبحہ أحد۔ علامہ ابن عابدین شامی اور اجلۂ علماے احناف نے اپنی اپنی کتابوں میں اسے نقل فرما کر مقرر رکھا ۔ کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا اس سے ظاہر ہوگیا کہ احناف کا یہ متفقہ حکم ہے ،زید اگر واقعی حنفی ہے تو اس کے لیے یہی کافی ہے کہ علماے احناف کا یہ متفقہ حکم ہے اور اگر بظاہر حنفی بنتا ہے اور اندر اندر غیر مقلد ہے تو معاملہ اور مشکل ہوگا۔ غیر مقلدین کا مقصد یہ ہے کہ داڑھی کتنی ہی بڑھ جائے لٹک کر ناف کے نیچے چلی آئے پھر بھی اس کا کاٹنا جائز نہیں۔ اب یہ امام حنفیت کا مدعی اور غیر مقلدین کی طرح حدیث سے ثبوت طلب کرنے والا سنے۔ امام مالک، امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داؤد، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور امام طحاوی حضرت عبد اللہ بن عمر فاروق اعظم رضي اللہ تعالی عنہما سے راوی ہیں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: (۱) خالفوا المشرکین وأحفوا الشوارب وأوفروا اللحی ۔ مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھیاں خوب وافر رکھو اور مونچھیں خوب پست کرو۔ صحیح بخاری کی روایت میں یہ ہے: أنھکوا الشوارب وأعفوا اللحی۔ مونچھیں پست کرو اور داڑھیاں چھوڑے رکھو۔ (۲) امام مالک اور ابو داؤد اور ایک روایت ترمذی میں ہے۔ إن رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- أمر بإحفاء الشوارب وإعفاء اللحیۃ۔ بے شک رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا: مونچھیں پست کرنے اور داڑھیاں معاف رکھنے کا۔ (۳) امام احمد ،مسلم، امام طحاوی، ابن عدی کامل، طبرانی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا: جُزوا الشوارب وأرخوا اللحی خالفوا المجوس۔ مونچھیں ترشواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ (۴) امام احمد کی روایت میں ہے: قصوا الشوارب وأعفوا اللحی۔ مونچھیں ترشواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ (۵) امام ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار میں حضرت انس سے راوی کہ فرمایا: أحفواالشوارب وأعفوا اللحی۔ مونچھیں پست کرو اور داڑھیوں کو معاف رکھو۔ (۶) امام احمد، طبرانی، بیہقی، ضیا صحیح مختارہ، حلیۃ الأولیا میں حضرت ابو امامہ باہلی سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ قصوا سبالکم ووفروا عثانینکم۔ مونچھیں کترواؤ اور داڑھیوں کو کثیر رکھو۔ (۷) حضرت ابو عبید اللہ محمد بن مخلد دوری نے اپنے جزء حدیثی میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خذوا من عرض لحاکم وأعفوا طولہا۔ داڑھیوں کے عرض سے لو اور طول کو معاف رکھو۔ (۸) خطیب بغدادی حضرت ابو سعید خدری سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا یاخذن أحدکم من طول لحیتہ۔ کوئی اپنی داڑھی کے طول میں سے ہرگز کم نہ کرے۔ (۹) ابن سعد طبقات میں عبد اللہ بن عبد اللہ سے مرسلاً راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لکن ربي أمرني۔ مجھے میرے رب نے حکم دیا کہ (اپنی مونچھیں پست کروں اور داڑھی بڑھاؤں۔) یہ ۹؍ حدیثیں ہوئیں جو نو صحابۂ کرام سے مروی ہیں جن میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا داڑھیاں کثیر وافر رکھو، داڑھیوں کو معاف رکھو،داڑھیوں کی لمبائی میں کچھ نہ کاٹو۔ اور یہ طے شدہ بات ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ ان حدیثوں سے ثابت کہ داڑھیوں کا کتروانے والا واجب کا تارک اور گنہ گار ہے۔ اس لیے کہ غیر مقلدین کا مذہب یہ ہے کہ داڑھی کتنی بھی لمبی ہو جائے اس میں سے کچھ نہ کاٹا جائے ۔ یہ امام لگتا ہے اندر اندر غیر مقلد ہے ، اگر ایسا ہے تو اسے جائز نہیں کہ داڑھی کا ایک بال بھی کاٹے اگرچہ وہ بڑھ کر زمین پر لٹکنے لگے۔ اسے حدیث کی نص صریح دکھائیں کہ سرکار نے فرمایا: لا یاخذن أحدکم من طول لحیتہ۔ کوئی شخص ہر گز داڑھی کے لمبائی سے نہ کاٹے۔ رہ گئی یہ بات کہ پھر ایک مشت سے زائد داڑھی کتروانے کی اجازت کیوں ہے؟ یہ اس بنیاد پر ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر فاروق جو مذکورہ بالا پہلی حدیث کے راوی ہیں وہ ایک مشت سے داڑھی جو زائد ہوتی اسے کترواتے ۔ ظاہر ہے کہ جب روایت کررہے ہیں: أحفوا الشوارب وأوفروا اللحی۔ پھر ایک مشت سے زائد کٹوارہے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی اجازت سنی ہوگی چوں کہ یہ ’’مالا یدرك إلا بالسماع‘‘ [ان چیزوں میں سے ہے جسے سماع ہی سے جاناجاسکتا ہے۔] کے قبیل سے ہے اس لیے حکم میں مرفوع کے ہے ورنہ حضرت عبد للہ بن عمر فاروق جیسے جلیل القدر صحابی اپنی ہی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرنے کی کیسے جرأت کر سکتے ہیں۔ بہر حال احادیث کریمہ وہ بھی ایک دو نہیں بیسیوں احادیث سے ثابت ہے کہ داڑھی کتروانا جائز نہیں، ناجائز وگناہ ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمر کے عمل سے اس کی حد ایک مشت رکھی گئی ہے اور احناف کا متفقہ مسئلہ ہے،کسی حنفی کا اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے داڑھی کتروا کر ایک مشت سے کم کرانے والا حنفی، فاسق معلن ہے ، اسے امام بنانا گناہ ۔ اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب ۔ غنیہ میں ہے:لو قدموا فاسقا یاثمون بناء علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ در مختار میں ہے: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved