22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) -ستر سالہ بوڑھے خطیب وامام جو بائیس سال سے اپنے محلے کی مسجد میں خطابت وامامت کا کام انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ متولی مسجد نوجوان نے امامت سے برطرف اس الزام پر کیا کہ ایک دو آدمیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ امام صاحب کے ایک لڑکے کا ناجائز تعلق اس کی چچیری بہن سے ہے اس لیے ان کے پیچھے نماز درست نہیں ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ جب کہ نہ محقق ہے نہ تصدیق۔ (۲) -امام صاحب نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے متولی سے کہا کہ وہ تو میرے چھوٹے بھائی کی بیٹی ہے ہم جس وقت چاہیں نکاح کر سکتے ہیں اور ایک ہفتہ کے اندر کر بھی دیا۔ لیکن متولی صاحب آپ کو تو چاہیے تھا کہ شکایت کی تحقیق وتصدیق کرکے فتوی منگا کر فیصلہ سناتے نہ کہ کوئی کان میں کہہ دیا بس، نہ بیان لیا نہ گواہی نہ حلف ہی لیا نہ فتوی ہی منگایا اور آپ برطرفی کا فیصلہ سنا دیے ۔ کیا شریعت کا یہی حکم ہے۔ متولی نے یہ جواب دیا کہ ہم یہ سب کچھ نہیں جانتے ’’فتوی وتوی کے چکر میں ہم نہیں پڑیں گے‘‘، کمیٹی نے مجھ کو متولی منتخب کیا ہے ہم اس کا حکم مانیں گے۔ کمیٹی کے حکم کے مطابق متولی کی حیثیت سے ہم نے آپ کو امامت سے برطرف کیا ہے۔ تو امام بولے تو گویا خدا کے گھر (مسجد ) میں خدا کا حکم اس کے رسول کی شریعت نہیں چلے گی بلکہ کمیٹی کا حکم چلے گا۔ متولی بولے اب آپ جو سمجھیے ہم نے تو کمیٹی کے حکم کے مطابق متولی کی حیثیت سے آپ کو امامت سے برطرف کیا ہے۔ یہ واضح رہے کہ مصلیان سے کچھ مشورہ نہیں لیا گیا اس لیے کہ مصلیان میں مختلف برادری کے لوگ رہتے ہیں اور یہ حکم ایک برادری کے صرف چند لوگوں کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ متولی اوراس کی کمیٹی کا ایمان رہا یا اسلام سے یہ لوگ خارج ہو گئے کیوں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کو ہٹا کر اپنا حکم نافذ کیا جب کہ امام کہہ رہے تھے فتوی کے لیے۔ اگر خارج ہو گئے تو کیا کرنا ہوگا اور اگر نہیں ہوئے تو ان کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ (۳) -اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے جہاں خدا و رسول خدا کا حکم نہ چلے بلکہ کمیٹی کا حکم چلے؟ (۴) -اگر کوئی یہ کہے کہ ’’شریعت وریعت ہم نہیں جانتے کسی کا جی کسی کے پیچھے نماز پڑھنے کا نہیں چاہے تو کیا کیجیےگا‘‘، امام بولے خدا اور اس کے رسول کے حکم کے آگے آپ کی جی چاہنے اور نہ چاہنے کہ کیا معنی۔ تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے اور جتنی نمازیں ان کے پیچھے پڑھی ہیں ساری لوٹانی پڑیں گی۔ شریعت کے حکم کو مذاق سمجھ رکھا ہےکیا، کیا یہ بات صحیح ہے؟

فتاویٰ #1852

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱-۴) کسی مسلمان پر کوئی الزام لگانا حرام قطعی ہے وہ بھی ناجائز تعلق کا الزام جو عرف میں زنا کے مرادف ہے ۔ الزام لگانے والے سب کے سب حق اللہ اور حق العبد میں گرفتار مستحق عذاب نار ہیں۔پھر اگر الزام ثابت ہوجاتا تو مجرم امام کا لڑکا ہوتا، بیٹے کے جرم کی سزا باپ کو دینی جب کہ باپ کے علم میں بھی یہ بات نہیں ظلم و حرام ہے۔ کسی امام کو بلا وجہ شرعی معزول کرنے کا حق متولی یا کمیٹی کو نہیں اور ایسا کرنا حرام وگناہ ہے، شامی میں ہے: لا یصح عزل صاحب وظیفۃ بلا جنحۃ۔ متولی نے کہا کہ ’’ فتوی وتوی کے چکر میں ہم نہیں پڑیں گے‘‘، یہ کلمہ کفر ہے ، اس قول کی وجہ سے متولی پر توبہ اور تجدید ایمان ونکاح لازم ہے۔ وہ اب اس لائق ہرگز نہیں کہ مسجد کا متولی رہ سکے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ جس طرح بھی ہو اس کو تولیت سے علاحدہ کریں۔اسی طرح جن بد بختوں نے یہ بکا کہ ’’شریعت وریعت ہم نہیں جانتے ‘‘یہ سب کافر ومرتد ہو گئے، اسلام سے خارج ہو گئے ، ان کی بیویاں ان کے نکاح سے نکل گئیں اگر اپنی بیویوں کے قریب جائیں گے تو زنا کے مرتکب ہوں گے۔ ان سب پر فرض ہے کہ کفر سے توبہ کریں پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوں اپنی ان بیویوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو ان سے دوبارہ نکاح کریں۔مسجد نے کیا قصور کیا ہے کہ اس میں نماز پڑھنا ناجائز ہو گا۔ قصور منتظمین کا ہے مسلمان ایسے خود سر، سرکش منتظمین کو الگ کریں، مسجد میں نماز ضرور پڑھی جائے گی۔ مقررہ امام اگر امامت کے لائق ہے اس کے پیچھے نماز صحیح ہوتی ہے تو اس کے پیچھے نماز باجماعت پڑھیں گے، جن لوگوں نے یہ کہا کہ ’’جس کے پیچھے ہمارا جی چاہے گا نماز پڑھیں گے جس کے پیچھے جی نہیں چاہے گا نہیں پڑھیں گے‘‘ غلط کہا۔ مقررہ امام میں اور کوئی شرعی نقص نہیں تو اس کے پیچھے نماز باجماعت پڑھنا واجب ہے اگر جماعت ترک کریں گے ، ترک جماعت کے وبال میں گرفتار ہوں گے۔امام نے بھی یہ غلط کہا کہ جتنی نماز ان کے پیچھے پڑھی ہیں ساری نمازیں لوٹانی پڑیں گی۔ امام پر اپنے اس قول سے توبہ واجب ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved