----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱-۴) کسی مسلمان پر کوئی الزام لگانا حرام قطعی ہے وہ بھی ناجائز تعلق کا الزام جو عرف میں زنا کے مرادف ہے ۔ الزام لگانے والے سب کے سب حق اللہ اور حق العبد میں گرفتار مستحق عذاب نار ہیں۔پھر اگر الزام ثابت ہوجاتا تو مجرم امام کا لڑکا ہوتا، بیٹے کے جرم کی سزا باپ کو دینی جب کہ باپ کے علم میں بھی یہ بات نہیں ظلم و حرام ہے۔ کسی امام کو بلا وجہ شرعی معزول کرنے کا حق متولی یا کمیٹی کو نہیں اور ایسا کرنا حرام وگناہ ہے، شامی میں ہے: لا یصح عزل صاحب وظیفۃ بلا جنحۃ۔ متولی نے کہا کہ ’’ فتوی وتوی کے چکر میں ہم نہیں پڑیں گے‘‘، یہ کلمہ کفر ہے ، اس قول کی وجہ سے متولی پر توبہ اور تجدید ایمان ونکاح لازم ہے۔ وہ اب اس لائق ہرگز نہیں کہ مسجد کا متولی رہ سکے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ جس طرح بھی ہو اس کو تولیت سے علاحدہ کریں۔اسی طرح جن بد بختوں نے یہ بکا کہ ’’شریعت وریعت ہم نہیں جانتے ‘‘یہ سب کافر ومرتد ہو گئے، اسلام سے خارج ہو گئے ، ان کی بیویاں ان کے نکاح سے نکل گئیں اگر اپنی بیویوں کے قریب جائیں گے تو زنا کے مرتکب ہوں گے۔ ان سب پر فرض ہے کہ کفر سے توبہ کریں پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوں اپنی ان بیویوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو ان سے دوبارہ نکاح کریں۔مسجد نے کیا قصور کیا ہے کہ اس میں نماز پڑھنا ناجائز ہو گا۔ قصور منتظمین کا ہے مسلمان ایسے خود سر، سرکش منتظمین کو الگ کریں، مسجد میں نماز ضرور پڑھی جائے گی۔ مقررہ امام اگر امامت کے لائق ہے اس کے پیچھے نماز صحیح ہوتی ہے تو اس کے پیچھے نماز باجماعت پڑھیں گے، جن لوگوں نے یہ کہا کہ ’’جس کے پیچھے ہمارا جی چاہے گا نماز پڑھیں گے جس کے پیچھے جی نہیں چاہے گا نہیں پڑھیں گے‘‘ غلط کہا۔ مقررہ امام میں اور کوئی شرعی نقص نہیں تو اس کے پیچھے نماز باجماعت پڑھنا واجب ہے اگر جماعت ترک کریں گے ، ترک جماعت کے وبال میں گرفتار ہوں گے۔امام نے بھی یہ غلط کہا کہ جتنی نماز ان کے پیچھے پڑھی ہیں ساری نمازیں لوٹانی پڑیں گی۔ امام پر اپنے اس قول سے توبہ واجب ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org